1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: فوجی عدالتوں پر تحفظات

افسر اعوان26 مارچ 2015

پاکستانی پارلیمان نے پشاور حملے کے بعد مخصوص مقدمات کے لیے ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دے دی تھی۔ ان عدالتوں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسے سویلین افراد کے مقدمات سن سکتی ہیں جو دہشت گردی میں ملوث ہوں۔

https://p.dw.com/p/1Ey9Y
تصویر: Reuters/A. Soomro

تاہم ان عدالتوں کے ناقدین کا کہنا ہے کہ دراصل اس طرح پاکستان کی پہلے سے ہی طاقتور فوج کو مزید مضبوط بنانے کی راہ ہموار کر دی گئی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی جانب سے اس حوالے سے ایک خصوصی تجزیے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ شکل میں فوجی عدالتوں سے انصاف کے تقاضے پورے ہونے کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔

روئٹرز نے ایسی ہی ایک عدالت میں پیش ہونے والے مقدمے کے ایک وکیل کے حوالے سے لکھا ہے کہ فوجی عدالتوں سے جو سزائیں سنائی گئی ہیں سول عدالتیں ان میں سے بعض تو ختم ہی کر دیت ہیں۔ بعض مدعا علیہان کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں قانونی نمائندگی کی اجازت ہی نہیں دی گئی جبکہ بعض دیگر کا کہنا ہے کہ انہیں دوران حِراست تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

روئٹرز کے مطابق ملٹری ایسی عدالتوں کا خاتمہ بھی کر سکتی ہیں جن کے فیصلے اس کی منشا کے مطابق نہ ہوں۔ ایک سابق فوجی جج انعام الرحمان کے مطابق انہیں محض اس بنیاد پر قبل از وقت ریٹائر کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے فوج کی اعلیٰ قیادت کی مرضی کے خلاف بعض فیصلے دیے۔ انعام الرحمان اب ہائی پروفائل ملٹری کیسز میں وکیل دفاع کے طور پر پیش ہوتے ہیں۔

پاکستانی پارلیمان نے پشاور حملے کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دے دی تھی
پاکستانی پارلیمان نے پشاور حملے کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دے دی تھیتصویر: AFP/Getty Images/A Majeed

روئٹرز کے مطابق اس تجزیاتی رپورٹ کے سلسلے میں پاکستانی فوج کو بھیجے گئے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ تاہم بعض فوجی افسران فوجی عدالتوں کے قیام کی بڑی وجہ حکومتی نا اہلی کو قرار دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک افسر نے روئٹرز کو بتایا، ’’سویلین عدالتوں کی حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ انصاف میں دیر بھی ہوتی اور انصاف ملتا بھی نہیں ہے جبکہ ملٹری عدالتوں کی صورت میں انصاف جلد اور ضرور ملتا ہے۔‘‘

پاکستانی سینیٹر اور ماہر قانون دان اعتزاز احسن نے فوجی عدالتوں کے حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک طرح سے حالت جنگ میں ہے اس طرح کی عدالتوں کا قیام ضروری تھا: ’’میں ملٹری کورٹس کا حمایتی نہیں ہوں مگر حالت جنگ اور اس حوالے سے قانونی طور پر جو تحفظات فراہم کیے گئے ہیں ان حالات میں ان کا جواز بنتا ہے۔‘‘

پاکستان کے وزیر داخلہ نثار علی خان نے صحافیوں کو بتایا کہ رواں ہفتے 50 سے زائد مقدمات ان نئی عدالتوں کو بھیجے گئے ہیں۔ اب تک نو فوجی عدالتیں قائم ہو چکی ہیں۔ وزیر داخلہ کے مطابق کوئی بھی کیس فوجی عدالت کو بھیجے جانے سے قبل پہلے اس کے لیے صوبائی سطح پر اجازت لی جاتی ہے جس کے بعد وزارت داخلہ اور پھر وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے حتمی توثیق کے بعد ایسا کوئی بھی مقدمہ فوجی عدالت کو بھیجا جاتا ہے۔

نثار علی خان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے درجنوں کیسز ہیں جنہیں وزارت داخلہ نے فوجی عدالتوں کو بھیجنے کی توثیق نہیں کی۔ ان نے یہ عزم بھی دہرایا کہ صرف دہشت گردوں کے مقدمات ہی فوجی عدالتوں کو بھیجے جائیں گے۔