1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی صحافیوں کی سکیورٹی کے لیے خصوصی قدامات کا فیصلہ

شکور رحیم اسلام آباد28 جنوری 2015

پاکستان میں نواز شریف حکومت نے بتایا ہے کہ صحافیوں اور صحافتی اداروں کے تحفظ کے لیے ایک خصوصی سسٹم متعارف کروایا جا رہا ہے۔ ابتدا میں یہ اسلام آباد میں نافذ کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1ESMG
تصویر: AP

پاکستانی وزیر مملکت برائے امور داخلہ بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ اسلام آباد پولیس کے تعاون سے تیار کیے گئے اس سکیورٹی سسٹم کو آزمائشی بنیادوں پر وفاقی دارلحکومت میں شروع کیا جارہا ہے بعد میں اس کا دائرہ کار ملک بھرمیں بڑھا دیا جائے گا۔

بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں کے تحفط کے لئے منعقدہ دور روزہ بین الاقوامی کانفرنس کی اختتامی نشست سے خطاب میں بلیغ الرحمن نے کہا کہ" سیکیورٹی کا یہ سسٹم اینڈروئیڈ سافٹ وئیرکے حامل موبائل فون سیٹس پر دستیاب ہوگا اور کوئی بھی صحافی خطرہ محسوس کرتے ہی اس سسٹم کے تحت بنایا گیا خصوصی بٹن دبائے گا تو اُس علاقے کی متعلقہ پولیس اس کی مدد کے لئے الرٹ ہو جائے گی۔"

بلیغ الرحمن کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی حفاظت کے لئے وفاقی وازرت داخلہ میں ایک میڈیا سیل بھی قائم کیا جائے گا۔ دنیا کے مخلتف ممالک سے اس کانفرنس میں شرکت کرنیوالے صحافتی تنظیموں کے نمائندوں نے صحافیوں کے تحفط کے لئے قانون سازی پر بھی زور دیا۔ صحافیوں کے تحفظ کے لئے تجاویز دینے کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے تعاون سے قائم کیے گئے اتحاد پاکستان کولیشن آن میڈیا سیفٹی (پیکام) کی جانب سےبنایا گیاایک مسودہ قانون بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔پیکام کی سٹیئرنگ کمیٹی کے ایک رکن اور پاکستان کے معروف صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ یہ کانفرنس دیگر کانفرسزز سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس کے انعقاد سے قبل ایک طویل ہوم ورک کیا گیا ہے۔

Pakistani TV Journalist Hamid Mir
پاکستانی صحافی حامد میرتصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

نامعلوم افراد کے قاتلانہ حملے میں زندہ بچ جانیوالے حامد میر کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے تحفط کے لئے اراکین پارلیمنٹ، سول سوسائٹی ،تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اورمیڈیا سے وابستہ افراد نے مل کر صحافیوں کے تحفظ کے مجوزہ بل کے مسودہ تیار کیا ہے جسے حتمی شکل دی جارہی ہے۔

پاکستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد کی موجودہ صورتحال کے بارے میں ایک سوال پر حامد میر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "مجھ پر کیے گئے حملے کے تحقیقاتی کمیشن سمیت حیات اللہ کے قتل اور عمر چیمہ پر حملے کے کمیشنوں کی رپورٹس منظر عام پر نہیں آسکیں۔صرف ایک صحافی سلیم شہزاد کے قتل پر بننے والے کمشن کی رپورٹ سامنے آئی لیکن اس کی سفارشات پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ریاستی ادارے صحافیوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہے ہیں۔"

Pakistan P.E.N. Inhaftierter pakistanischer Journalist
ایک مقید پاکستانی صحافی پولیس گاڑی سے وکٹری کا نشان بناتا ہواتصویر: picture alliance/dpa

انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے تحفظ کے مجوزہ بل میں ریاستی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ بنانے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔حامد میر نے توقع ظاہر کی کہ یہ بل رواں برس اسمبلی میں پیش کر لیا جائے گا۔

صحافیوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس(سی پی جے) کے پروگرام کوآرڈینیٹر باب ڈیڈز کے مطابق پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے مجوزہ بل کے قانون بننے کی صورت میں اس سے دوسرے ممالک بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا جامع قانون ہو گا جس کی تیاری میں خود صحافیوں کی رائے بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ "میں یہ سمھجتا ہوں کہ قانون بنانے کے بعد یہ نہیں سمھجنا چاہیے کہ ہر چیز درست ہو جائے گی ہو سکتا ہے کہ موجودہ حکومت اس قانون کو صحافیوں کے تحفظ کے لئے استعمال کرے لیکن بعد میں آنے والی کوئی حکومت اسے صحافیوں کے خلاف بھی استعمال کر سکتی ہے‘‘

بول میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ اینکر پرسن وسیم بادامی کا کہنا تھا کہ حکومت صحافیوں کی حفاظت کے لئے کافی اقدامات کر سکتی ہے لیکن تمام امیدیں حکومت سے ہی رکھنا بھی درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ریاست چاہے تو وہ صحافیوں کے تحفظ کے لئے نہ صرف مؤثر قوانین بنا سکتی ہے بلکہ ان پر سختی سے عملدرآمد بھی کرا سکتی ہے۔لیکن اس معاملے میں مختلف میڈیا ہاؤسزز کو بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔"

خیال رہے کہ پاکستان کو صحافیوں کے لئے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک سمھجا جاتا ہے۔پیکامز کے مطابق سال 2007 سے 2014 کے دوران ہر اٹھائیس دن بعد ایک صحافی کوہلاک کیا گیا۔