1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، جنسی طور پر ہراساں ہونے والی طالبات پُرعزم

عاطف بلوچ28 فروری 2015

پاکستان کی یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے۔ اس قانون کی عدم موجودگی کے باعث طالبات کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EjCL
تصویر: Fotolia/apops

ثناء ریحان نے اپنے خاندان کے قدامت پسند خیالات کے باوجود پاکستان کی ایک بہترین یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ ایک کامیاب کیریئر بنانے کے اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر سکے۔ تاہم اکیس سالہ اس طالبہ کے خواب اس وقت چکنا چور ہونے لگے، جب اسے ایک استاد نے جسمانی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کیا۔

پشاور یونیورسٹی کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ ثناء ریحان نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’کچھ لمحوں کے لیے میں نے سوچا کہ یہ جگہ (یونیورسٹی) میری جیسی لڑکی کے لیے نہیں ہے۔۔۔ میں وہاں سے فرار ہو جانا چاہتی تھی۔‘‘ مایوسی کے کئی ہفتوں بعد ثناء نے فصیلہ کیا کہ ان مشکلات کا مقابلہ کرے گی۔ اس وقت ثناء کو یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس کی یہ کوشش قومی سطح پر توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔

جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات منظر عام پر آنے کے بعد گزشتہ برس مارچ میں پروفیسر امیر نواز کو ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کے عہدے سے معطل کر دیا گیا تھا اور متعلقہ حکام نے ان کے خلاف باقاعدہ طور پر انکوائری شروع کر دی تھی۔

Pakistan Symbolbild Frau Schleier Tochter Internet Handy
جنسی حراساں ہونے والی پاکستانی خواتین زیادہ تر شکایت نہیں کرتی ہیںتصویر: NICOLAS ASFOURI/AFP/Getty Images

ثناء کے کیس کی انکوائری کرنے والی ٹیم کی رکن پروفیسر نسرین غفران نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’اس مسئلے کی شدت دہلا دینے والی ہے۔‘‘ وہ ایسے دیگر متعدد کیسوں کی چھان بین بھی کر رہی ہیں، جن میں لڑکیوں نے اساتذہ کے خلاف ہراساں کرنے کے الزامات عائد کر رکھے ہیں۔ ان کیسوں پر تبصرہ کرتے ہوئے نسرین نے مزید کہا، ’’اس طرح کے واقعات باقاعدگی سے رونما ہو رہے ہیں۔‘‘

پشاور یونیورسٹی میں ’انٹرنیشنل ریلیشنز‘ ڈیپارٹمنٹ سے منسلک پروفیسر نسرین غفران نے یہ بھی بتایا کہ اس طرح کے واقعات میں کئی استاد اپنے ایسے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش بھی کرتے ہیں، جو طالبات کو ہراساں کرتے ہیں۔ انہوں نے حیرانی سے بتایا، ’’ مجھے دھچکا لگا، جب میں نے ایک مرد ٹیچر کو یہ کہتے سنا کہ لڑکیوں کی موجودگی ہماری ملازمت کے اضافی فوائد میں سے ایک ہے۔‘‘

خیبر پختونخوا صوبے کے ارکان پارلیمان نے فیصلہ کیا ہے کہ یونیورسٹی کی سطح پر جنسی ہراساں کرنے جیسے واقعات کی تحقیقات کی جائیں گی۔ صوبائی رکن پارلیمان نگہت اورکزئی کے مطابق اس کیس کی تحقیقات کے بعد جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ بہت زیادہ پریشان کن ہیں، ’’اگر والدین کو علم ہو جائے کہ ان کی بیٹیوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان میں سے کوئی بھی اپنی بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے کبھی نہ بھیجے۔‘‘

کام کرنے کی جگہوں پر خواتین کو تحفظ فراہم کرنے والے وفاقی ادارے کی سربراہ اور ریٹائرڈ جج یاسمین عباسی کہتی ہیں کہ یہ مسئلہ کسی ایک علاقے تک محدود نہیں ہے، ’’ہمارے محکمے کو پاکستان بھر کی مختلف یونیورسٹٰوں اور کالجوں سے ایسی شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں۔‘‘ انہوں نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے اساتذہ کے بارے میں کہا، ’’یہ لوگ زندگی کے تمام شعبہ جات میں رول ماڈل ہونا چاہییں لیکن یہ بنیادی اخلاقیات سے عاری ہیں۔‘‘

پاکستان میں سن 2010ء میں جنسی ہراساں کرنے کے خلاف ایک قانون متعارف کرایا گیا تھا لیکن اس کا نفاذ صرف کام کرنے کی جگہوں پر ہوتا ہے جبکہ یہ یونیورسٹیوں پر لاگو نہیں ہوتا۔ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کی کوشش ہے کہ اسی قانون کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے اس کا نفاذ یونیورسٹی کی سطح پر بھی کر دیا جائے۔ یاسمین عباسی کے بقول قانون کی عدم موجودگی کے باعث جنسی ہراساں کرنے والے زیادہ تر ٹیچرز بچ جاتے ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ ثناء ریحان کو مبینہ طور پر جنسی ہراساں کرنے والے پروفیسر امیر نواز کو گزشتہ ماہ اپنے عہدے پر بحال کر دیا گیا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کو سزا دینے کے لیے کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے۔ اس فیصلے سے ثناء ایک مرتبہ پھر کچھ خوفزدہ ہوئی لیکن اس نے عہد ظاہر کیا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنے خوابوں کی تعبیر ضرور حاصل کرے گی۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں نے سیکھا ہے کہ ہمیں بہادر لوگوں کی طرح لڑنا چاہیے۔‘‘