پاکستان: امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج
مالی وسائل کی غیر متوازن تقسیم پاکستان میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو وسیع تر کرتی جا رہی ہے۔ امراء کی زندگی مزید پرتعیش اور غرباء کی مزید تکلیف دہ ہوتی جا رہی ہے۔
اسلام آباد میں سینٹارس Centaurus کہلانے والے اس کمرشل کمپلیکس کا افتتاح 2013ء میں ہوا تھا۔ ساڑھے تین سو ملین ڈالر کے برابر لاگت سے تعمیر کردہ یہ کئی منزلہ مال اب شاپنگ اور آؤٹ ڈور ڈائننگ کے لیے وفاقی دارالحکومت میں سب سے پرکشش مقام بن چکا ہے۔ جدید ترین ڈیزاین کے اس کمپلیکس میں ہر طرح کے ملبوسات کی دکانیں، مختلف اسٹور اور امریکی فاسٹ فوڈ ریستوران بہت کامیاب کاروبار کرتے ہیں۔
یہ اسلام آباد کے سیکٹر آئی الیون کی ایک کچی بستی ہے، جس کا کوئی نام نہیں ہے۔ کوئی پکی گلی، ڈسپنسری، بجلی اور پانی کی فراہمی یا نکاسی آب کا نظام نہیں ہے۔ یہاں مٹی سے بنےکچے گھروں، ان کے مکینوں، غربت اور محرومی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ اس بستی کی زیادہ تر پشتون آبادی پاکستان کے قبائلی علاقوں سے آنے والے مزدوروں اور ان کے اہل خانہ پر مشتمل ہے۔
یہ سینٹارس میں کاروبار کے ایک عام دن کے آغاز سے کچھ پہلے کا منظر ہے۔ گاہکوں کی آمد شروع ہونے ہی والی ہے۔ دیکھنے میں یہ شاپنگ مال پاکستان ہی کا کوئی حصہ نہیں بلکہ کسی یورپی ملک کا شاپنگ سینٹر محسوس ہوتا ہے۔ اسلام آباد کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد یہاں خریداری کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
شہر کے سیکٹر آئی الیون کی اس کچی بستی کے مکینوں کو انتظار ہے کہ انہیں بھی کم از کم بنیادی سہولیات مہیا کی جائیں۔ ایسا اس لیے نہیں ہو سکے گا کہ اسلام آباد میں ترقی کے ذمے دار ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس اس بستی کے قانونی وجود کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ بستی کے اکثر مرد مقامی سبزی منڈی میں محنت مزدوری کرتے، ٹھیلے لگاتے یا روزانہ اجرت کی بنیاد پر مال برداری کرتے ہیں۔
سینٹارس نے سینکڑوں افراد کو روزگار بھی دیا ہے اور ہر روز ہزاروں صارفین اس شاپنگ مال کا رخ کرتے ہیں۔ جو خرید سکتے ہیں، ان کے لیے کچھ بھی مہنگا نہیں۔ جن کی استطاعت نہیں ہوتی، وہ ادھر کا رخ ہی نہیں کرتے۔ کسی بھی ان ڈور ریسٹورنٹ میں والدین اور دو بچوں پر مشتمل فیملی کے ایک وقت کے مناسب کھانے پر لاگت تین سے چار ہزار روپے آتی ہے۔ تقریباً اتنی ہی رقم میں یہیں سے ایک امپورٹڈ جینز بھی خریدی جا سکتی ہے۔
بزرگ جو کام کاج کے قابل نہیں رہے، جوان جو بےروزگار ہیں اور نابالغ بچے جن کے لیے تعلیم محض ایک خواب ہے، سب ادھر ادھر کی مصروفیات میں وقت گزارتے ہیں۔ بھوک لگے تو گھر کا روکھا سوکھا یا پھر اس تصویر میں نظر آنے والے خوانچہ فروش سے خریدے گئے دو کباب اور ایک نان، قیمت اڑتیس روپے۔
پاکستانی دارالحکومت کے قدرے خوشحال گھرانوں کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ایک پسندیدہ منزل سینٹارس بھی ہے۔ تعلیم کے لیے سرکاری اسکول اور کالج یا پھر پرائیویٹ انگلش میڈیم ادارے، جہاں او لیول کے کسی طالب علم یا طالبہ کی اوسط سالانہ فیس قریب چار لاکھ روپے بنتی ہے۔
سی ڈی اے کی حدود کے اندر واقع سیکٹر آئی الیون میں ایک سڑک کے کنارے آباد کچی بستی کے ان بچوں میں سے شاید ہی کوئی اسکول جاتا ہو۔ لڑکے کھیل کود میں وقت گزارتے ہیں اور بچیاں ہو سکے تو گھر کے کام کاج میں ماؤں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ ان بچوں کے پیچھے ٹریفک کے نیلے بورڈ بتاتے ہیں کہ کون سا رستہ کدھر کو جاتا ہے۔ جہاں یہ بچے کھڑے ہیں، وہ رستہ کہیں نہیں جاتا۔
جرمن ہول سیل سپر مارکیٹ میٹرو کی ایک شاخ اسلام آباد میں بھی ہے، جو میٹرو کیش اینڈ کیری کہلاتی ہے۔ پاکستانی دارالحکومت کی میٹرو مارکیٹ شہر کے سیکٹر آئی الیون کی کچی بستی سے محض چند منٹ پیدل کے فاصلے پر ہے لیکن بظاہر میٹرو میں شاپنگ کرنے والے صارفین اور کچی بستی کے مکین دو مختلف دنیاؤں کے لوگ ہیں۔
قدامت پسند پاکستانی معاشرے بالخصوص پشتون گھرانوں میں لڑکیوں کی شادیاں اکثر چھوٹی عمر میں کر دی جاتی ہیں۔ اس بچی کی لیکن ابھی شادی نہیں ہوئی اور وہ اپنی چھوٹی بہن کو گود میں اٹھائے ہوئے ہے۔ تعلیم، صحت اور کسی بھی طرح کے سماجی تحفظ سے محروم نئی نسل کی ان بچیوں کی حالت یہ ہے تو اگلی نسل کی حالت کیسی ہو گی؟