1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان امریکی ’چالوں‘ میں نہ آئے، خامنہ ای

عاطف توقیر13 مئی 2014

ایرانی سُپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی ’چالوں‘ میں نہ پھنسے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا اور چند دیگر حکومتیں دو مسلمان ملکوں کے مابین تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنا چاہتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BybI
تصویر: khamenei.ir

پیر کے روز تہران میں پاکستانی وزیراعظم محمد نواز شریف سے ملاقات کے دوران خامنہ ای نے کہا کہ امریکا نہیں چاہتا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان قریبی تعلقات قائم ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن دونوں ممالک کی سرحد پر فرقہ ورانہ کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے۔ واضح رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے کے دوران سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات میں خامنہ ای کا کہنا تھا کہ امریکا اور چند دیگر حکومتیں دو مسلمان ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ خامنہ ای کے ایرانی میڈیا پر سامنے آنے والے بیان کے مطابق، ’’ہمیں معلوم ہے کہ ہماری طویل سرحد پر کس طرح کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ کچھ چاہتے ہیں کہ یہ سلامتی کا مسئلہ پیدا ہو۔ ہم یقین نہیں کر سکتے کہ یہ حادثاتی اور مشتعل کرنے والی سرگرمیاں نہیں۔‘‘

Afghanistans Präsident Nawaz Sharif
وزیراعظم نواز شریف نے ایران کے دو روزہ دورے کے دوسرے روز ایرانی سپریم لیڈر سے ملاقات کیتصویر: Reuters

ان کا مزید کہنا تھا، ’’امریکا، جس کی چالیں سب جانتے ہیں، ان ممالک میں شامل ہے، جو پاکستان اور ایران کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکا کے ساتھ ساتھ اس میں چند دیگر حکومتیں بھی شامل ہیں۔‘‘

اس بیان سے خامنہ ای کی مراد ایران کے مشرقی صوبے میں سُنی انتہا پسند گروہ جش العدل کی کارروائیاں ہیں، جن کے بارے میں ایران کا اصرار ہے کہ اس تنظیم کی جڑیں پاکستانی علاقے میں ہیں۔

رواں برس فروری میں ایران کے پانچ فوجی بھی اغوا ہو گئے تھے، جن کے بارے میں تہران حکومت کا کہنا تھا کہ اغواکار انہیں پاکستانی علاقے میں لے گئے۔ واضح رہے کہ ان میں سے چار فوجی وطن واپس پہنچ گئے تھے، تاہم پانچواں فوجی لاپتہ ہے۔ اس فوجی کے اغواکاروں کا کہنا ہے کہ اسے قتل کر دیا گیا تھا۔ پاکستان اس ایرانی الزام کی تردید کرتا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی ایک اور وجہ گیس پائپ لائن منصوبہ بھی ہے۔ پاکستانی حکومت کہہ چکی ہے کہ ایران کے خلاف عائد عالمی پابندیوں کے تناظر میں اس منصوبے پر عمل درآمد فی الحال ممکن نہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس پائپ لائن کی تکمیل کا کام ایرانی علاقے میں تقریباﹰ مکمل ہو چکا ہے، تاہم پاکستانی علاقے میں اس پر کام ہونا ابھی باقی ہے۔

اس سے قبل پاکستانی وزیر اعظم نے اتوار 11 مئی کو ایرانی صدر حسن روحانی سے بھی ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کو دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں قرار دیتے ہوئے منصوبے کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔