1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يورپی خلائی تحقيق، اہم لمحہ آن پہنچا

عاصم سليم12 نومبر 2014

تاريخ ميں پہلی مرتبہ يورپی سائنسدان آج ايک سيارچے پر ايک خلائی جہاز اتارنے کی کوشش کر رہے ہيں۔ اس سيارچے پر خلائی جہاز اتارنے کا يہ منصوبہ يورپی سائنسدانوں کی گزشتہ دس سال سے جاری کاوشوں کا اہم ترين مرحلہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1DljE
تصویر: ESA via Getty Images

ايک دہائی پر محيط مشن کا آج سب سے سنسنی خيز مرحلہ ہے۔ يورپی اسپيس ايجنسی ESA کی جانب سے بدھ کے روز علی الصبح روزيٹا نامی خلائی جہاز کو حتمی طور پر یہ سگنلز دے دیے گئے کہ وہ 67P/Churyumov-Gerasimenko نام کے ’کامٹ‘ يا سيارچے پر اتر کر نمونے حاصل کر سکتا ہے۔ سيارچے کی سطح سے نمونے حاصل کرنے کے ليے کام اس وقت جاری ہے اور تازہ ترين اطلاعات کے مطابق روزيٹہ کا ايک چھوٹا حصہ يہ کام سر انجام دينے کے ليے خلا ميں چھوڑا جا چکا ہے۔ جرمن شہر ڈارم اشٹٹ ميں قائم ايجنسی کے کنٹرول سينٹر نے واشنگ مشين کے سائز کے اس چھوٹے حصے کو روانہ کيے جانے کی تصديق کر دی ہے۔

چار کلومیٹر سائز کے اس سيارچے سے حاصل کردہ نمونے 4.6 بلين برس قبل قيام ميں آنے والے نظام شمسی ميں نہ صرف ہمارے سيارے زمين بلکہ ديگر سياروں کی پيدائش کے بارے ميں بھی معلومات فراہم کر سکتے ہيں۔ یہ عظیم سائنسی کوشش زمین سے پانچ سو ملین کلومیٹر کے فاصلے پر عمل میں آ رہی ہے۔

منصوبے پر کام کرنے والی ٹيم کے ارکان
منصوبے پر کام کرنے والی ٹيم کے ارکانتصویر: ESA/J.Mai

يہ امر اہم ہے کہ خلائی جہاز کے جس حصے کو نمونے جمع کرنے کے ليے روانہ کيا گيا ہے، اس کے ’تھرسٹر‘ ميں نقص ہے۔ يہ ’تھرسٹر‘ خلائی جہاز کے حصے کو سيارچے کی سطح پر روکنے کے ليے ضروری ہے تاکہ وہ سطح سے ٹکرا کر دوبارہ اچھل نہ پائے۔ تاہم اس ميں نقص کا مطلب يہ ہے کہ اب جہاز کو سيارچے پر اترنے کے ليے صرف ’ہارپونز‘ کا سہارا حاصل ہو گا۔

يورپی اسپيس ايجنسی کے اس مشن کے سربراہ پاؤلو فيری کے بقول گزشتہ رات تياريوں کے دوران اٹھنے والے متعدد مسائل کے باوجود سائنسدانوں نے خلائی جہاز کے ايک حصے کو نمونے جمع کرنے کے مقصد سے سيارچے پر اتارنے کے طے شد منصوبے کو پایہٴ تکميل تک پہنچانے کا فيصلہ کيا ہے۔

سائنسدانوں کو اس بات کا خيال رکھنا ہو گا کہ تين ٹانگوں والے ’فلے‘ نامی اس چھوٹے خلائی جہاز کو بالکل درست وقت اور درست رفتار سے چھوڑا جائے کيونکہ ان کے پاس اسے کنٹرول کرنے کا کوئی طريقہ کار موجود نہيں اور اسے سيارچے کی سطح تک پہنچنے ميں سات گھنٹوں کا وقت درکار ہو گا۔ تازہ اطلاعات کے مطابق ’فلے‘ کو چھوڑا جا چکا ہے اور عالمی وقت کے مطابق شام چار بجے اسے سيارچے کی سطح پر اترنا ہے۔

واضح رہے کہ انجينيئرز نے جس وقت روزيٹا کے اس ’لينڈر‘ يا سيارچے کی سطح پر اترنے والی اس مشين کو تيار کيا تھا، اس وقت وہ 67P/Churyumov-Gerasimenko کی سطح کی تفصيلات سے واقف نہ تھے اور يہی وجہ ہے کہ لينڈنگ کا يہ عمل ذرا پيچيدہ ہے۔ روزينٹا اس سيارچے کی تصاوير اتارتا رہا ہے، جن سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی سطح اتنی ہموار نہيں، جتنی کی توقع کی گئی تھی۔

زمين سے قريب 6.4 بلين کلوميٹر کا سفر طے کرنے کے بعد روزيٹا کے ذريعے سيارچے سے معلومات حاصل کرنے کا يہ عمل دس برس پہلے شروع کيا گيا تھا اور آج يہ مشن اپنے آخری مرحلے ميں ہے۔ يورپی اسپيس ايجنسی کا کہنا ہے کہ اگر ’فلے‘ کی لينڈنگ ناکام بھی ہو جاتی ہے، تو 1.3 بلين يورو کی لاگت سے 2004ء ميں شروع کيا جانے والا يہ منصوبہ اپنا 80 فيصد کام پھر بھی مکمل کر چکا ہو گا۔