1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وِدودو انڈونیشی صدر بن گئے، تبصرہ

Grahame Lucas / امجد علی20 اکتوبر 2014

جوکو وِدودو نے انڈونیشیا کے نئے صدر کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار گراہم لوکاس کے مطابق وِدودو کو مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا کیونکہ پارلیمان میں اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت ہے۔

https://p.dw.com/p/1DYlY
انڈونیشیا کے نئے صدر جوکو وِدودو
انڈونیشیا کے نئے صدر جوکو وِدودوتصویر: Reuters

انڈونیشیا کے نئے صدر جوکو وِدود عوام اور بالخصوص اُس نئی نسل کے ایک نمائندے کے طور پر ملک کے نئے سربراہِ مملکت منتخب کیے گئے ہیں، جو سہارتو آمریت کی پرانی قیادت سے مکمل طور پر فاصلے پر جا چکا ہے۔ جولائی کے انتخابات میں جوکو وِدودو کی معمولی اکثریت سے کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اُنہیں بدعنوانی اور اقربا پروری کے خلاف بلا امتیاز جنگ کرنے والی شخصیت بھی تصور کیا جاتا ہے۔

اُن کے حریف امیدوار پرابووو سوبیانتو سابق آمر سہارتو کے سابق داماد ہیں اور اُن پرانے ارب پتی خاندانوں کے نمائندے ہیں، جو روایتی طور پر ملک کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں۔ شکست اٹھانے کے باوجود سوبیانتو نے ہتھیار نہیں ڈالے اور وہ پارلیمان میں اکثریت کی حامل اپوزیشن کے قائد کے طور پر نئے صدر کے لیے زیادہ سے زیادہ مسائل کھڑے کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔

مثلاً ابھی حال ہی میں پارلیمان نےبلدیاتی سطح پر براہِ راست انتخابات کا طریقہٴ کار منسوخ کر دیا۔ اسی انتخابی طریقہٴ کار کی بدولت وِدودو پہلے درمیانے سائز کے شہر سولو اور پھر دارالحکومت جکارتہ کے میئر بنے اور بالآخر ملک کے اعلیٰ ترین عہدے تک جا پہنچے۔ مقامی سطح پر براہِ راست انتخابات کو سہارتو آمریت کے بعد انڈونیشیا میں جمہوری ارتقا کی ایک علامت تصور کیا جا رہا تھا اور اُن کا ختم کر دیا جانا ہرگز اچھا شگون نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار گراہم لوکاس
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار گراہم لوکاستصویر: DW/P. Henriksen

اقتدار کی مفلوج کر دینے والی کشمکش کا خطرہ

اپوزیشن نے اپنی قوت کا مظاہرہ صرف براہِ راست انتخابی طریقہٴ کار کی منسوخی کے ذریعے ہی نہیں کیا بلکہ اُس نے پارلیمان کے اسپیکر اور اُس کے چاروں نائبین بھی اپنی صفوں میں سے منتخب کروا لیے۔ سیاسی تصادم کے یہ سارے طریقے جمہوری طور پر جائز سہی تاہم انڈونیشیا کے قومی مفادات کے حوالے سے دیکھا جائے تو طاقت کی یہ کشمکش ایک تشویشناک علامت ہے۔

جواب میں وِدودو نے اپنے ردعمل کا اظہار یوں کیا کہ کابینہ کے عہدوں کی تقسیم کے عمل میں اُنہوں نے سہارتو دور کے پرانے سیاستدانوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ وِدودو کی حکمتِ عملی یہ نظر آتی ہے کہ وہ رائے عامہ کو متحرک کرتے ہوئے اپوزیشن کو مجبور کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ اصلاحات کے راستے پر نئی حکومت کا ساتھ دے۔ یہ پالیسی امریکی صدر باراک اوباما کی پالیسیوں کی یاد دلاتی ہے، جن کے ساتھ وِدودو کا عموماً موازنہ کیا جاتا ہے۔

طاقت کی اس کشمکش میں فتح کس کے حصے میں آئے گی، یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی البتہ اس کشمکش کے طویل ہو جانے کی صورت میں کاروبارِ مملکت اور بالخصوص معیشت کے مفلوج ہو جانے کا خطرہ ہے۔ وِدودو کی کامیابی پر شروع شروع میں مثبت ردعمل ظاہر کرنے والے کاروباری ادارے بھی اب سیاسی تصادم کے ممکنہ طور پر طویل عمل کو دیکھتے ہوئے تشویش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج میں مندی نظر آ رہی ہے اور اُس بیرونی سرمایہ کاری کا ابھی دور دور تک بھی کوئی پتہ نہیں، جس کی آس وِدودود نے لگا رکھی ہے۔

جوکو وِدودو ملک میں نظر آنے والے اس بحران کے مقابلے پر ابھی غیر متزلزل نظر آ رہے ہیں۔ وہ عوامی تائید سے اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور پرانی قیادت کےساتھ سمجھوتوں سے گریز کرنا چاہتے ہیں، خواہ اُنہیں مسائل کو حل کرنے کے عوامیت پسندانہ طریقے ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑیں۔ یہ طرزِ عمل کتنا ہی لائقِ تحسین کیوں نہ ہو لیکن بالآخر وِدودو کو بھی یہ سیکھنا پڑے گا کہ سیاست میں تمام امکانات اور راستے کھلے رکھنا پڑتے ہیں۔ محض اسی صورت میں وہ اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کو کم از کم جزوی طور پر ملکی قوانین کا حصہ بنا سکتے ہیں اور انڈونیشیا کی ترقی کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کر سکتے ہیں۔