1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وسطی افریقی جمہوریہ: مسلمانوں پر زندگی کا دائرہ تنگ

عابد حسین10 فروری 2014

اسی ویک اینڈ پر وسطی افریقی جمہوریہ میں عبوری پارلیمنٹ کے ایک رکن سمیت تیرہ سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ مذہبی منافرت کے باعث مختلف علاقوں کے مسلمان خوف و ہراس میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

https://p.dw.com/p/1B5ul
تصویر: Issouf Sanogo/AFP/Getty Images

شورش زدہ افریقی ملک وسطی افریقی جمہوریہ کے دارالحکومت بنگوئی میں تشدد کے تازہ واقعات کے دوران اسی ویک اینڈ پر تیرہ افراد کی ہلاکت کا بتایا گیا ہے۔ تین افراد کل اتوار کی سہ پہر میں قتل ہوئے۔ ان میں دو مسلمانوں کو مشتعل مسیحی گروپوں نے دو مختلف مقامات پر ہلاک کیا جبکہ مسلمانوں نے بھی ایک مسیحی کو اس شک پر مار ڈالا کہ اُس نے مسجد پر دستی بم پھینکا تھا۔ ہفتہ اور اتوار کو شہر میں لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری رہا اور کئی عمارتوں کو بھی بلوائیوں تے آگ لگائی۔

Zentralafrika Bangui Flüchtlinge 30.01.2014
بنگوئی کے شمال مغرب کے نواح میں آباد بڑی مسلم آبادی پوری طرح نقل مکانی کر چکی ہےتصویر: Reuters

اتوار کے روز مسیحی ملیشیا نے وسطی افریقی جمہوریہ کی عبوری پارلیمنٹ کے رکن ایمانویل دجاراوا (Emmanuel Djarawa) کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ عینی شاہدین کے مطابق دجاراوا کو مسیحیوں کی اینٹی بالاکا ملیشیا نے ہلاک کیا ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اینٹی بالاکا مسیحی ملیشیا کئی ہفتوں سے دجاراوا کے معمولات پر باقاعدگی سے نگاہ رکھے ہوئے تھی۔ بنگوئی میں قائم عبوری حکومت نے ابھی تک دجاراوا کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی ہے۔ اِس دوران بنگوئی یونیورسٹی کے چانسلر گُستاو بوبوسی نے یونیورسٹی کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ بنگوئی یونیورسٹی کئی ماہ کی بندش کے بعد آج پیر سے کھل رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں پرتشدد واقعات میں تسلسل کے تناظر میں وسطی افریقی جمہوریہ کے مسلمانوں کو انتہائی سنگین اور پرخطر حالات کا سامنا ہے۔ ہزاروں مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ابھی تک ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی درست تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکا ہے۔ افراتفری کے شکار اس افریقی ملک میں فرانسیسی فوجیوں کے علاوہ افریقی امن دستے بھی موجود ہیں لیکن مسلمان آبادی کے حالات بہتر نہیں ہو پا رہے اور مسلح مسیحی ملیشیا کے اراکین حملے کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے پیٹر بُوکیرٹ کے مطابق اِس وقت ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہلاکتوں کے سلسلے کو فوری طور پر روکا جائے۔

Zentralafrikanische Republik Ausschreitungen Gewalt Christen Muslime 30.01.14
افراتفری کے شکار اس افریقی ملک میں فرانسیسی فوجیوں کے علاوہ افریقی امن دستے بھی موجود ہیںتصویر: Issouf Sanogo/AFP/Getty Images

وسطی افریقی جہوریہ کی کُل آبادی 46 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور اِس میں مسلم آبادی کا حصہ 15 فیصد ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 8 لاکھ افراد مہاجرت اختیار کر کے دوسرے مقامات کی جانب منتقل ہو گئے ہیں اور ان میں سے نصف لوگ بنگوئی سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ہفتے کے روز عبوری حکومت کے وزیراعظم آندرے نزاپائیکی (Andre Nzapayeke) نے اعتراف کیا کہ کوئی ایسی قوت موجود ہے جو نہیں چاہتی کے اِس ملک میں مسلمان موجود رہیں۔

پچھلے جمعے یعنی سات فروری کو بنگوئی سے ہزار ہا مسلمانوں کا قافلہ کئی گاڑیوں پر سامان لاد کر جب نقل مکانی کے لیے روانہ ہوا تو ارد گرد کھڑے بے شمار مسیحی افراد نے ان پر آوازے کسنے کے ساتھ اُن کا مذاق بھی اُڑایا۔ اس دوران ایک شخص ٹرک سے نیچے گر پڑا تو مذاق اڑانے مسیحیوں نے اُسے ہلاک کر دیا۔ جن علاقوں کے مسلمان ابھی تک نقل مکانی نہیں کر سکے وہ مساجد میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور حکومتی سکیورٹی کے منتظر ہیں۔ بنگوئی کے شمال مغرب کے نواح میں آباد بڑی مسلم آبادی پوری طرح نقل مکانی کر چکی ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق مسلم آبادی والے تمام علاقے ویران ہو گئے ہیں۔