زمرد: وادیٴ سوات کی کانوں کا سبز سونا
پاکستان کی وادیٴ سوات میں فضاگٹ کے ساتھ ساتھ بریکوٹ کے علاقے شموزئی اور ضلع شانگلہ میں بھی زمرد کی کانیں موجود ہیں، جن سے ہزاوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
سبز رنگ کا طلسم
زمرد کا سبز رنگ دیکھنے والے پر سحر طاری کر دیتا ہے۔ اس پتھر کی مانگ ویسے تو پوری دنیا میں ہے تاہم جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں بالخصوص سنگاپور اور چین میں اس سے بنی ہوئی مصنوعات بے حد پسند کی جاتی ہیں۔
سینکڑوں گھرانوں کے لیے روزگار
فضاگٹ کے مقام پر زمرد کی کان میں چارسو کے قریب مزدور کام کرتے ہیں۔ کان کے مالک خالد خان کے مطابق سالانہ حکومت کو ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
حکومتی غفلت، کم تر منافع
جدید مشینری نہ ہونے کے باعث کان کے صرف بیس ایکڑ علاقے میں کھدائی ہوتی ہے۔ جدید سہولیات اور بنیادی ڈھانچے کے فقدان کے باعث حکومت کو اس کان سے کوئی قابل ذکر منافع نہیں ملتا۔ کان کے اندر سرنگیں کچی ہیں۔ کھدائی کمپریسرز کے ذریعے کی جاتی ہے، جو بہت مشکل ہوتی ہے۔ محکمہ معدنیات کے مطابق حکومت بند پڑی کانوں کو جلد کھولنے پر غور کر رہی ہے اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں سے بھی بات چیت چل رہی ہے۔
دنیا بھر میں مانگ
زمرد جیسے قیمتی پتھر کی مانگ پوری دنیا میں ہے۔ پاکستانی زمرد کو بین الاقوامی منڈی میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ ملک میں مناسب سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے نہ اس علاقے کے عوام کو ان کانوں کا زیادہ فائدہ ہو رہا ہے اور نہ ہی ملک کو۔
کان پر طالبان کا قبضہ
1996ء میں بند ہونے والی کان پر 2005ء میں طالبان نے قبضہ کر لیا۔ کان میں کھدائی کرنے والی نجی کمپنی کے مالک خالد خان کے مطابق طالبان کے قبضے کے دوران پانچ سالوں میں کان کا حلیہ بگاڑ دیا گیا:’’روزانہ تین سے چار ہزار افراد کان میں کام کرتے تھے اور ملنے والے قیمتی پتھروں کو بیرون ملک فروخت کرتے تھے، طالبان کے دور میں کان کو بے دردی سے لوٹا گیا تھا۔‘‘
زمرد کی کانوں کی دریافت
یہ کان 1958ء میں والیٴ سوات کے دور میں دریافت ہوئی۔ اِسے بعد میں سرحد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ تب مشکل سے دو سال چلنے کے بعد 1996ء میں اسے بند کر دیا گیا۔ پندرہ سالہ بندش کے بعد زمرد کی اس کان پر 2010ء میں دوبارہ کھدائی کا کام شروع کیا گیا۔
کام مشکل بھی، خطرناک بھی
حکومت اس طرح کی کانوں کی کوئی سرپرستی نہیں کر رہی ہے۔ جدید سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث ان سرنگوں میں پرانے اور روایتی طریقے سے کام کیا جاتا ہے، جو مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہوتا ہے۔
زمرد کی اونے پونے داموں خرید و فروخت
سوات سے برآمد ہونے والے زمرد کی مقامی سطح پر نیلامی ہوتی ہے۔ بیوپاری اونے پونے داموں خرید کر بھارت اور تھائی لینڈ میں کٹائی کے بعد ان پتھروں کو دبئی، امریکا، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں کو فروخت کرتے ہیں۔ زمرد کی قیمت پتھر کے سائز، رنگ اور صفائی کے لحاظ سے لگائی جاتی ہے۔
بین الاقومی معیار کا قیمتی پتھر
سوات میں برآمد ہونے والا زمرد بین الاقوامی معیار کا قیمتی پتھر ہے، جو اپنی انفرادیت، رنگ اور باریکی کے لحاظ سے دنیا بھر میں شہرت کا حامل ہے۔ قیمتی پتھروں کے ماہرین کے مطابق زیادہ تر پتھر ایک سے لے کر پانچ قیراط تک وزن کے ہوتے ہیں، جن کی قیمت پچاس ہزار سے لے کر کئی لاکھ تک ہوتی ہے۔ قیمت کا دار و مدار کٹائی اور کوالٹی پر ہوتا ہے۔
پرانا اور روایتی طریقہٴ کار
سوات میں موجود فضاگٹ کے مقام پر زمرد کی کان کا کل رقبہ 182 ایکڑ ہے، جو وسیع و عریض پہاڑی علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ کان میں کئی سو میٹر تک سرنگیں بنائی گئی ہیں، جن میں مزدور کھدائی کرتے ہیں۔ کان میں کام کرنے والے ایک مزدور عبد اللہ کے مطابق جدید سہولیات اور مشینری نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کھدائی کے دوران برآمد ہونے والے پتھروں کو جال نما ٹرے میں ہاتھو سے دھویا جاتا ہے اور زمرد کو الگ کیا جاتا ہے۔
زمرد کو پرکھنے کا عمل
سوات کی کانیں دنیا بھر میں زمرد کی بڑی کانوں میں شمار ہوتی ہیں۔ یہاں سے نکلنے والے پتھروں کو اُن کے سائز اور خوبصورتی کے اعتبار سے جانچ کر الگ الگ کیا جاتا ہے اور اسی اعتبار سے اُن کی قیمت کا بھی تعین کیا جاتا ہے۔
پتھروں کی کٹائی
زمرد کان سے برآمد ہونے والے پتھروں کو ملک میں کٹنگ انڈسٹری نہ ہونے کے باعث کٹائی کے لیے بھارت اور تھائی لینڈ بھیجا جاتا ہے۔ پتھروں کے ماہر محمد ابراہیم کے مطابق اسی لیے ماضی میں لوگ سوات کے زمرد کو بھارتی زمرد سمجھتے تھے لیکن اب لوگ جان گئے ہیں کہ یہ سوات کے زمرد ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پتھروں کی کٹائی کی انڈسٹری لگائے تاکہ ملنے والے پتھر ملک کے اندر ہی تیاری کے مراحل سے گزریں۔
زمرد سے بنے زیورات کی مانگ
عام طور پر اس پتھر کو زیورات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ لوگ اس سے بنے نگینے کو شوق سے انگوٹھی میں جڑا کر پہنتے ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے پتھروں کو ہار کی شکل میں پرو کر بھی پہنا جاتا ہے۔
زمرد سے تیار کردہ نگینہ
قیمتی پتھر زمرد کا استعمال انگوٹھیوں اور زیورات میں ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں دستی گھڑیوں کے مشہور برانڈ رولیکس میں بھی زمرد لگائے جاتے تھے۔ پتھروں کے ماہرین کے مطابق قیمت زیادہ ہونے کے باعث اب اس کا رجحان کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور زیادہ تر زمرد بیرون ملک فروخت کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔