نیپال میں زلزلہ، ہلاکتوں کی تعداد چار ہزار سے متجاوز
27 اپریل 2015خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کے روز بھی کھٹمنڈو ایئرپورٹ کے ذریعے امدادی جہاز خوراک اور دیگر ضروری ساز و سامان کے ساتھ نیپال پہنچتے رہے۔ روئٹرز کے مطابق اس زلزلے کے بعد ہونے والی تباہی انتہائی زیادہ ہے، جب کہ ملکی ہسپتال بھی شدید دباؤ کا شکار ہیں۔
ہفتے کے روز کھٹمنڈو سے مغرب کی جانب آنے والے سات اعشاریہ نو کی شدت کے اس زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد چار ہزار تک پہنچ چکی ہے، جب کہ حکام کے مطابق متعدد علاقوں میں ابھی تک امدادی ٹیمیں نہیں پہنچ پائیں ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں میں اضافے کے خدشات ہیں۔
وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے روئٹرز سے بات چیت میں کہا کہ سن 1934ء میں آنے والے زلزلے کے بعد یہ ملک میں آنے والی سب سے بڑی قدرتی تباہی ہے اور اس میں ہلاکتوں کی تعداد پانچ ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ خیال رہے کہ 1934ء میں آنے والے زلزلے میں ساٹھ آٹھ ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حکام کے مطابق متاثرہ علاقوں میں خوراک کے علاوہ خصوصی ریسکیو سروسز اور لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے ساز وسامان کی ضرورت ہے۔
روئٹرز کے مطابق کھٹمنڈو میں بسنے والے ایک ملین رہائشی ہفتے کے روز سے کھلے آسمان تلے شب بسری کر رہے ہیں، کیوں کہ یا تو ان کے مکانات منہدم چکے ہیں یا وہ ضمنی جھٹکوں کی وجہ سے وہ دوبارہ اپنے گھروں میں داخل ہونے سے خوف زدہ ہیں۔
پیر کے روز کھٹمنڈو سے باہر جانے والے راستے عوام کے ہجوم سے جام رہے۔ یہ افراد بسوں اور ٹرکوں کے ذریعے دیگر علاقوں میں منتقل ہونے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے علاوہ ملکی ہوائی اڈے پر بھی عوام کی لمبی قطاریں نظر آئیں۔
دریں اثناء ملک کے دیگر علاقوں سے بھی تباہی کی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ماؤنٹ ایورسٹ پر کوہ پیماؤں کا ایک بیس کیمپ بھی اس زلزلے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے برفانی طوفان کی نذر ہو گیا۔ اس بیس کمیپ میں بھی 17 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ متعدد کوہ پیماؤں کو ہیلی کاپٹروں کی مدد سے بھی ریسکیو کیا گیا ہے۔
روئٹرز کے مطابق کھٹمنڈو سے شمال مشرق میں تین گھنٹے کی مسافت پر واقع سندھو پال چوک کے علاقے میں ہلاک شدگان کی تعداد 875 جب کہ اس زلزلے کے مرکز کے قریب واقع دھادنگ نامی علاقے میں ہلاکتوں کی تعداد 241 ہے۔
روئٹرز کے مطابق کئی دیہات اور چھوٹے علاقے ایسے بھی ہیں، جہاں اب تک نہ تو امدادی ٹیمیں پہنچ پائی ہیں اور نہ ہی امدادی سامان اور یہاں موجود رہائشی خوراک اور طبی سازوسامان کے منتظر ہیں۔