1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال: جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے لیے عام معافی ناممکن

افسر اعوان27 فروری 2015

نیپال کی سپریم کورٹ نے ملک میں ایک دہائی تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے مرتکب افراد کو عام معافی دی جانے کے امکان کو رد کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EiiS
تصویر: PRAKASH MATHEMA/AFP/Getty Images

نیپال میں کئی برسوں سے یہ کوشش ہو رہی تھی کہ ماؤ نوازوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جاری رہنے والے تنازعے کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کو کس طرح انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ 2006ء میں ختم ہونے والی خانہ جنگی کے دوران سترہ ہزار افراد ہلاک جبکہ دیگر تیرہ سو لاپتہ ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ ہزاروں افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا تھا۔

نیپال کی سپریم کورٹ کے ایک اہلکار بابورام داھل نے خبر رساں ادارے روئٹرز کوبتایا، ’’عدالت نے قانون میں موجود عام معافی کے امکان کو ختم کر دیا ہے اور کہا ہے کہ کسی مصالحت کے لیے متاثرین کی رضامندی ضروری ہے۔‘‘ دوسری طرف نیپالی حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ اس عدالتی فیصلے کا احترام کرے گی۔

حکومتی فورسز اور ماؤنواز باغیوں دونوں پر خانہ جنگی کے دوران غیر قانونی ہلاکتوں، لوگوں کو حراست میں لینے اور لاپتہ کرنے کے علاوہ اُن کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کرنے کے الزامات عائد ہیں۔

Nepal Kathmandu Regierungsgebäude
تصویر: Devandra Man Singh/AFP/Getty Images

گزشتہ برس ملکی پارلیمان کی جانب سے مصالحتی کمیشنز کے قیام کے لیے ایک قانون بنایا گیا تھا۔ ان کمیشنز کو یہ اختیار بھی دیا گیا کہ وہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کو عام معافی دے سکتے تھے۔ تاہم اس قانون کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے جنگی جرائم کے مبینہ افراد کو تحفظ دینے کا بہانہ قرار دیا گیا۔ ایسے افراد میں سے بعض اب بھی فوج اور سیاسی جماعتوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔

تین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے یہ فیصلہ جمعرات کو دیر گئے سنایا۔ اس موقع پر جنگی متاثرین اور ان کے خاندان کے افراد کی بڑی تعداد موجود تھی۔ یہ فیصلہ 200 متاثرین کی طرف سے جمع کرائی گئی ایک درخواست پر سنایا گیا جس میں مصالحتی کمیشنز کو دیے گئے اختیارات کو چیلنج کیا گیا تھا۔

متاثرین کے وکیل دنیش تریپاٹھی نے اس فیصلے کو ایک تاریخی عدالتی فیصلہ قرار دیا، ’’یہ سیاسی جماعتوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جو چاہتے تھے کہ کمیشن ان کی سہولت کے حساب سے کام کریں۔‘‘ تنازعے کے دوران متاثر ہونے والوں نے بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو سراہا ہے۔

2006ء میں حکومت اور باغیوں کے درمیان ہونے والے امن معاہدے میں یہ شرط بھی رکھی گئی تھی کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفتیش جنگ بندی کے چھ ماہ کے اندر اندر کرائی جائے گی۔ تاہم مختلف حکومتوں کی طرف سے اس بارے میں کئی گئی کوششیں سیاسی اثر و رسوخ کے باعث کامیاب نہ ہو پائیں۔