نیویارک سربراہ کانفرنس میں تحفظ ماحول کی باتیں
23 ستمبر 2014آج کی ایک روزہ سربراہ کانفرنس سے پہلے نیویارک شہر میں اب تک اپنی نوعیت کے غالباً سب سے بڑے مظاہرے میں کانفرنس کے شرکاء پر زور دیا گیا کہ وہ زمینی درجہء حرارت میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کا راستہ روکنے کے لیے جلد از جلد عملی اقدامات کریں۔ اس مظاہرے میں امریکا بھر سے شریک تحفظ ماحول کے علمبرداروں کا کہنا تھا کہ وہ اوباما کی ماحول سے متعلق اب تک کی پالیسیوں سے کافی زیادہ مایوس ہیں۔
امدادی تنظیم آکسفیم کے ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں امریکا میں ایک سو قدرتی آفات آئیں، جس کی کہ دنیا کے کسی اور ملک میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ امریکی شہریوں کی بہتر مالی حالت کے باعث نقصان اُتنا زیادہ نہیں ہوا، جتنا کہ دنیا کے غریب ترین ملکوں میں آنے والی آفات مثلاً فلپائن کے سمندری طوفان یا پھر پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں ہوتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیویارک اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد کے مظاہروں کے بعد اب ساری نظریں اوباما پر لگی ہیں اور اُن پر کوئی نہ کوئی واضح حکمتِ عملی اختیار کرنے کے لیے کافی زیادہ دباؤ ہے۔
واشنگٹن کے تھنک ٹینک ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ سے وابستہ جینیفر مارگن کے خیال میں یہ احتجاجی مظاہرے اس بات کی واضح علامت ہیں کہ امریکا میں اصلاحات کی منزل قریب آن پہنچی ہے۔ جینیفر مارگن ’توانائی اور ماحول پروگرام‘ کی ڈائریکٹر بھی ہیں، جو کوئلے کی راکھ سے پاک دنیا کے لیے کوشاں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سینڈی نامی طوفان کے بعد امریکی عوام میں تحفظ ماحول کے لیے عوامی حمایت بڑھی ہے اور اوباما کو اسی حمایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ماحول کے تحفظ کے لیے بہتر اقدامات کی وکالت کرنی چاہیے۔ تاہم وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ وہ موجودہ حالات میں تحفظ ماحول کے لیے کسی نئی قانون سازی کا کوئی امکان نہیں دیکھ رہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ ’2010ء میں اوباما نے ایک ایسا قانون منظور کروانے کی کوشش کی تھی، جس کا مقصد بجلی گھروں کو فضا میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کے حقوق خریدنے پر مجبور کرنا تھا تاہم یہ کہ امریکی سینیٹ نے اوباما کا ’کَیپ اینڈ ٹریڈ‘ کا یہ منصوبہ ناکام بنا دیا۔
اپنی دوسری آئینی مدت میں اوباما نے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا اور تحفظ ماحول کے محکمے EPA کی مدد سے ایک ایسا ضابطہ تیار کروایا ہے، جس میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے لیے زیادہ سخت شرائط تجویز کی گئی ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ان بجلی گھروں کو 2005ء کے مقابلے میں 2030ء تک اپنے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں تیس فیصد تک کی کمی لانا ہو گی۔ چونکہ یہ ضابطہ ری پبلکنز اور کوئلے کی صنعت کے ساتھ اتفاقِ رائے کے بغیر تیار کیا گیا تھا، اس لیے ان دونوں فریقوں کی جانب سے اس ضابطے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ آج کل اس ضابطے پر عوامی بحث مباحثہ چاری ہے اور پروگرام کے مطابق اسے آئندہ برس نافذ کر دیا جائے گا۔
قدرتی ماحول کے تحفظ کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے نائب صدر لُو لیونارڈ کے خیال میں اگر اوباما اس ضابطے کو نافذ کروانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ایک بڑا قدم ہو گا۔ ساتھ ہی البتہ لیونارڈ نے یہ بھی کہا کہ چین کے بعد دنیا میں آلودگی کے دوسرے سب سے بڑے ذمے دار کے طور پر امریکا کو اس سے کہیں زیادہ بڑے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کینیڈا اور روس کے سربراہانِ حکومت نے اس کانفرنس میں اپنی شرکت منسوخ کر دی ہے جبکہ چین اور بھارت بھی محض اپنے نمائندے بھیج رہے ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جگہ بھی اُن کی وزیر ماحول باربرا ہینڈرِکس اس کانفرنس میں شریک ہو رہی ہیں۔