1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیتن یاہو امریکا میں لیکن اوباما برہم

امتیاز احمد2 مارچ 2015

سن دوہزار نو میں امریکی صدر باراک اوباما اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے جس وقت اقتدار سنبھالا تھا، اس وقت ہی متعدد وجوہات کی بناء پر توقع کی جا رہی تھی کہ دونوں کے مابین تعلقات مشکل کا شکار ہو جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/1Ejkk
Benjamin Netanjahu bei Barack Obama Washington 01.10.2014
تصویر: Reuters/Kevin Lamarque

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو امریکا کی سرپرستی میں ایران کے ساتھ ’’برے‘‘ بین الاقوامی جوہری معاہدے کو روکنے اور اس حوالے سے ’تاریخی جدوجہد‘ کرنے کے لیے آج واشنگٹن پہنچ گئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کے اس اڑتالیس گھنٹے کے متنازعہ دورے کی وجہ سے نہ صرف باراک اوباما کے ساتھ ان کے تعلقات مزید بگڑ گئے ہیں بلکہ حالیہ برسوں میں اسرائیل اور امریکا کے مابین تعلقات نچلی ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم کا یہ دورہ سفارتی آداب کو پس پشت رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔ کل بروز منگل اسرائیلی وزیراعظم کانگریس سے خطاب بھی کریں گے۔ یہ خطاب وہ ری پبلیکنز کی دعوت پر کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں امریکی صدر سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، جو کہ معمول کے پروٹوکول کی خلاف ورزی ہے۔

رپبلیکن اور ڈیموکریٹک انتظامیہ کے مشرق وسطیٰ کے معاملات سے متعلق مشیر آرون ملر کے مطابق اوباما اور نیتن یاہو پہلے ہی ایک دوسرے سے مختلف آراء رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے بھی اختلافات پائے جاتے ہیں، ری پبلیکن قیادت والی کانگریس اسرائیلی انتخابات سے پہلے خود کو منوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان تمام وجوہات کی بنیاد پر سرائیل اور امریکی تعلقات کے حوالے سے ’صورتحال طوفانی‘ بن چکی ہے۔

امریکی صدر اور باراک اوباما کے مابین مسائل کے شکار تعلقات پر ایک نظر۔

آغاز سے ہی اختلافات

امریکی صدر اور اسرائیلی وزیر اعظم کے مابین تعلقات سن دو ہزار نو ہی میں کشیدہ ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کے لیے نئی بستیوں میں توسیع کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ماحول میں امن مذاکرات ناممکن ہیں۔ دوسری جانب اوباما ہر حال میں امن مذاکرات کے حوالے سے ایک معاہدہ چاہتے تھے اور اُس ایلچی کو اسرائیل بھیجا گیا، جو نئی بستیوں کی تعمیر کے شدید ناقد تھے۔ اس وقت نیتن یاہو کی طرف سے سخت ترین موقف اپناتے ہوئے ایران کو ’اسرائیل کا دشمن‘ قرار دیا گیا جبکہ اوباما ایران کے ساتھ مذاکرات کے حامی تھے۔

اس کے بعد امریکی صدر نے قاہرہ میں ایک تقریر کی، جو امریکا کے مسلمان دنیا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے تھی۔ اس تقریر میں صدر اوباما نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کی بات کی اور یہ بھی کہا کہ ان کا ملک غیر قانونی بستیوں کی تعمیر کو تسلیم نہیں کرے گا۔

بداعتمادی میں اضافہ

نومبر دو ہزار گیارہ میں جنوبی فرانس میں عالمی رہنماؤں کے ایک اجلاس کے دوران سابق فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے باراک اوباما سے کہا، ’’میں نیتن یاہو کو برداشت نہیں کر سکتا، وہ ایک جھوٹا شخص ہے۔‘‘ اس پر اوباما کا جواب تھا، ’’ تم اس سے تنگ آ چکے ہو او مجھے تو اس کے ساتھ ہر روز کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘

اسی طرح باراک اوباما نے دو ہزار بارہ میں نیتن یاہو سے اس وقت ملنے سے انکار کر دیا، جب اسرائیلی وزیراعظم جنرل اسمبلی میں خطاب کے لیے پہنچے ہوئے تھے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ صدر اوباما کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں۔

بڑھتی ہوئی کشیدگی

سن دو ہزار چودہ میں نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس میں احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ نئی یہودی بستیوں کی تعمیر پر تنقید ’امریکی اقدار کے خلاف‘ ہے۔ اس کے بعد وہ رپورٹ بھی سارے اسرائیلی میڈیا کی زینت بنی، جب ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو ’ایک بزدل اور اڑیل انسان‘ ہے۔ بعد ازاں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس تبصرے کو نامناسب قرار دیا لیکن اس وقت اسرائیل اور امریکا کے مابین تعلقات کے بارے میں خدشات بڑھ چکے تھے۔

اب ری پبلیکن کے ہاؤس اسپیکر جان بوئنر نے وائٹ ہاؤس کو اطلاع دیے بغیر نیتن یاہو کو کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے لیے بلایا ہے تاکہ نتین یاہو ممکنہ جوہری معاہدے کے خلاف بات کر سکیں۔ وائٹ ہاؤس نے اسے پرٹوکول کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اوباما نیتن یاہو سے نہیں ملیں گے کیونکہ وہ شہر میں نہیں ہوں گے۔ اسرائیل میں انتخابات سر پر ہیں اور نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ وہ ہر صورت امریکا جائیں گے۔

امریکی صدر کی سلامتی کے مشیر سوزن رائس نے غیر معمولی طور پر اس دورے کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ انہوں نے اسے بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دورہ تعلقات کے حوالے سے غیر تعمیری ہوگا۔