نہ ختم ہونے والی توانائی کا خواب ابھی تعبیر سے دور
22 مئی 2015اس مقصد کے لیے سرد جنگ کے ان حریف ممالک یعنی سوویت یونین اور امریکا کے علاوہ دیگر ممالک نے باہمی تعاون کا فیصلہ کیا تاکہ مستقبل میں توانائی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ بڑی مقدار میں یہ توانائی دراصل نسبتاﹰ محفوظ طریقے سے حاصل کی جانی تھی جسے فیوژن کا نام دیا جاتا ہے۔
اس فیصلے کو آج 30 برس ہو چکے ہیں مگر یہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ بنیادی فیصلے کے بعد کئی برسوں کی کوششوں کے بعد 2006ء میں بالآخر شروع ہونے والا ’انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمنٹن ری ایکٹر‘ (ITER) نامی منصوبہ ابھی تک نا مکمل ہے۔ ابتدائی طور پر اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ پانچ بلین یورو لگایا گیا تھا مگر اب یہ اندازہ 15 بلین یورو تک پہنچ چکا ہے۔
تاہم رواں برس مارچ میں چارج سنبھالنے والے اس منصوبے کے نئے ڈائریکٹر جنرل بیرنار بیگو کا کہنا ہے کہ ان کی پوری کوشش ہو گی کہ اگلے چار برسوں میں اس منصوبے کی آزمائش ممکن ہو سکے گی۔ کیونکہ اب اس منصوبے کے پارٹنر کو اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ توانائی کے حصول کے اس اہم منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہیے۔ 65 سالہ بیگو لمبے عرصے تک فرانس کے اٹامک انرجی کمیشن (CEA) کے سربراہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ 28 رکنی یورپی یونین، امریکا اور روس کی جانب مشترکہ فیصلہ سازی میں آنے والی تاخیر ہے۔
ITER کی ایک ذمہ داری ایک ایسے تجرباتی لیبارٹری کی تیاری ہے جس میں یہ دیکھا جا سکے کہ آیا فیوژن اس صدی کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک حقیقی ذریعہ بن بھی سکتی ہے یا نہیں۔
فیوژن دراصل ایک ایسا عمل ہے جس میں کم ایٹمی وزن رکھنے والے عناصر کے نیوکلیئس کو بہت زیادہ درجہ حرارت پر اس طرح ملایا جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں زیادہ ایٹمی وزن والے عناصر وجود میں آتے ہیں اور اس سارے عمل کے دوران توانائی کی بہت زیادہ مقدار پیدا ہوتی ہے۔
نیوکلیئر فیوژن کا عمل دراصل نیوکلیئر فِشن کے بالکل بر عکس ہے۔ فشن کا طریقہ دراصل ایٹمی توانائی کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس میں بھاری عناصر کو چھوٹے عناصر میں توڑا جاتا ہے اور اس عمل کے دوران بھی بہت زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے۔ تاہم فشن پراسیس میں ایک قباحت یہ ہے کہ کسی حادثے کی صورت میں ایک تو یہ بہت خطرناک ثابت ہو سکتا تو دوسرا مسئلہ اس پراسیس کے بعد پیدا ہونے والے تابکار مادے کو ٹھکانے لگانا بھی ہوتا ہے جو طویل عرصے تک خطرات کا باعث بنا رہتا ہے۔
طویل تاخیر کے بعد اب فرانس کے جنوبی حصے میں اس تجرباتی لیبارٹری کے لیے درکار ضروری عمارات پر کام جاری ہے۔ مرکزی عمارت جسے ’ٹوک ماک‘ کا نام دیا گیا ہے وہ 2018ء میں مکمل ہو گی جبکہ تمام 39 عمارات 2022ء تک پایہ تکمیل تک پہنچ سکیں گی۔
روسی زبان سے لیے گئے لفظ ٹوک ماک نامی یہ لیبارٹری بذات خود ایک غیر معمولی حجم کی لیبارٹری ہے جس کا وزن 23000 ٹن ہو گا یعنی آئیفل ٹاور سے تین گنا زیادہ وزن کی حامل۔
بیرنار بیگو کے مطابق، ’’مشکلات تو ہیں مگر ہمارا مکمل یقین ہے کہ نیوکلیئر فیوژن پر کی جانے والی سرمایہ کاری فائدہ مند ثابت ہوگی‘‘۔