1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نواز شریف مظاہروں اور افواہوں کی لپیٹ میں

ندیم گِل2 ستمبر 2014

پاکستان میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس آج ہو رہا ہے۔ اس سے قبل وزیر اعظم اور آرمی چیف نے حکومت مخالف مظاہروں کے تناظر میں طویل ملاقاتیں کی ہیں۔ خدشہ ہے کہ یہ پرتشدد احتجاج وزیر اعظم کو مستعفی ہونےپر مجبور کر سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1D53z
تصویر: Reuters

وزیر اعظم نواز شریف نے پیر کو ایک مرتبہ پھر کہا کہ وہ دھمکیوں سے متاثر ہو کر مستعفی نہیں ہوں گے۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق نواز شریف کا یہ بیان مظاہرین کی جانب سے مختصر دورانیے کے لیے دارالحکومت اسلام آباد میں سرکاری ٹی وی  ’پاکستان ٹیلی وژن‘ (پی ٹی وی) پر قبضے کے بعد سامنے آیا۔

مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں پیر کو بھی جاری رہیں۔ تاہم تین روز سے جاری پرتشدد مظاہروں کا یہ دباؤ نواز شریف پر ان رپورٹوں کے بعد اور بھی زیادہ ہو گیا جن کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے انہیں مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ تاہم فوج نے بعد ازاں اس بات کی تردید کر دی۔

منگل کو ہونے والے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس وزیر اعظم کے لیے سیاسی حمایت کو متحرک کرنے کی کوشش دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ اب تک بہت سے سیاستدان ان کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں، تاہم ملک میں مظاہروں کی وجہ سے ’نئی جمہوریت‘ کی سمت پر تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔

Pakistan Unruhen in Islamabad Polizei
پرامن مظاہرے ویک اینڈ پر پرتشدد رخ اختیار کر گئےتصویر: Reuters

یہ بحران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک (پی ٹی اے) کے سربراہ طاہر القادری کی قیادت میں گزشتہ دو ہفتے سے زائد عرصے سے جاری مظاہروں کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ یہ دونوں رہنما گزشتہ برس کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ان کا احتجاج کافی دِنوں تک پرامن رہا تاہم ویک اینڈ پر اس نے ایک بھیانک موڑ لیا اور مظاہروں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور چار سو سے زائد زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں خواتین، بچے اور سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔

پیر کو مزید جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین نے کچھ دیر کے لیے سرکاری ٹی وی اسٹیشن پی ٹی وی پر قبضہ کر لیا جس کے نتیجے میں اس ٹیلی وژن کی نشریات بند ہو گئیں۔ پی ٹی وی کے اعلیٰ اہلکار اطہر فاروق کا کہنا ہے کہ بیس کیمرے غائب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے آلات کو نقصان پہنچایا اور ملازمین سے الجھے۔

بعدازاں فوج اور نیم فوجی دستوں نے مظاہرین کو پی ٹی وی کےدفاتر سے نکالا اور اس کی نشریات بحال کروائیں۔ اے پی کے مطابق بعض نجی ٹی وی چینلوں پر نشر کی گئی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ بعض مظاہرین رینجرز اہلکاروں کو گلے لگا رہے تھے۔

دارالحکومت میں پیر کو اس وقت یہ افواہیں گردش کرنے لگیں جب متعدد ٹیلی وژن چینلوں نے یہ رپورٹیں نشر کیں کہ فوج نے نواز شریف پر عہدہ چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔ بعدازاں فوج نے ان رپورٹوں کو ’بے بنیاد‘ قرار دیا۔

تاہم اس بحران میں فوج کے کردار پر سوالات نے جاوید ہاشمی کی نیوز کانفرنس کے بعد پھر سر اٹھایا ہے۔ ہاشمی اتوار تک پی ٹی آئی کے ایک اعلیٰ عہدے دار تھے۔ انہوں نے پیر کو ص‍حافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی احتجاجی تحریک کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔

عمران خان نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ فوج نے بھی کہا ہے کہ وہ مظاہرین کی حمایت نہیں کر رہی اور جمہوریت کے لیے اس کی حمایت ’بالکل واضح‘ ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید