1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نمرود خطرے میں، ’آئی ایس‘ کے ہاتھوں عراقی ثقافتی ورثہ تاراج

امجد علی27 فروری 2015

جمعرات کو جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجو ہتھوڑوں اور ڈرل مشینوں کی مدد سے اپنے زیر قبضہ عراقی شہر موصل کے ایک عجائب گھر میں صدیوں پرانے بیش قیمت مجسموں کو تباہ کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Eiiq
یہ منظر اُس ویڈیو سے لیا گیا ہے، جس میں جنگجوؤں کو صدیوں پرانے مجسمے تباہ کرتے دکھایا گیا ہے
یہ منظر اُس ویڈیو سے لیا گیا ہے، جس میں جنگجوؤں کو صدیوں پرانے مجسمے تباہ کرتے دکھایا گیا ہےتصویر: Quelle: Islamischer Staat/Internet

اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے موصل کے آثارِ قدیمہ کے اس میوزیم میں یہ جنگجو ایک ایک کر کے میوزیم کے مختلف حصوں میں شو کیسوں میں سجے یا دیواروں پر آویزاں مجسموں کو ریزہ ریزہ کر رہے ہیں۔ یہ جنگجو زمین پر گرے ہوئے مجسموں میں بھی ڈرلنگ کرتے ہوئے اس امر کو یقینی بنا رہے ہیں کہ صدیوں پرانے مجسموں کے خدّ و خال اس حد تک خراب ہو جائیں کہ اُنہیں دوبارہ بحال کیا ہی نہ جا سکے۔

ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے اس ویڈیو کے منظرِ عام پر آنے کے ایک روز بعد جمعہ ستائیس فروری کو خدشات ظاہر کیے ہیں کہ موصل کے عجائب گھر کو تاخت و تاراج کرنے کے بعد دہشت گرد گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادی اپنے زیرِ قبضہ علاقوں میں موجود صدیوں پرانے ثقافتی ورثے کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ تباہ و برباد کرنے کے مشن پر نکل سکتے ہیں۔

پیغمبر حضرتِ یونسؑ کا صدیوں پرانا مزار، جسے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں نے تباہ کر دیا
پیغمبر حضرتِ یونسؑ کا صدیوں پرانا مزار، جسے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جہادیوں نے تباہ کر دیاتصویر: picture-alliance/dpa/EPA

بتایا گیا ہے کہ اب دو قدیم شہروں الحضر اور نمرود کو خاص طور پر خطرہ ہے۔ الحضر تو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ یہ دونوں شہر موصل سے جنوب کی جانب واقع ہیں اور موصل وہ شہر ہے، جو گزشتہ سال جون سے عراق میں ’آئی ایس‘ کے جہادیوں کے ایک مرکز کی سی شکل اختیار کر چکا ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے نیویارک کی سٹونی بروک یونیورسٹی سے وابستہ عراقی ماہرِ آثارِ قدیمہ عبدل عامر حمدانی نے کہا:’’ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی ہے، بین الاقوامی برادری کو مداخلت کرنی چاہیے۔‘‘

حمدانی قدیم نوادرات سے متعلقہ محکمے سے وابستگی کے دوران عراق میں کام بھی کر چکے ہیں۔ حمدانی نے امریکا سے ٹیلیفون پر اے ایف پی کو بتایا:’’اُنہوں (آئی ایس کے جنگجوؤں) نے گارڈز کو بتایا کہ وہ نمرود کو تباہ کر دیں گے، جو آشوری عہد کے بہت ہی اہم مراکز میں سے ایک ہے اور جہاں ابھری ہوئی تصویریں اور پروں والے بیلوں کے مجسمے ہیں۔ اگر انہیں بھی توڑ پھوڑ دیا گیا تو یہ صحیح معنوں میں ایک بڑی تباہی ہو گی۔‘‘

حمدانی نے کہا کہ ’آئی ایس‘ کے جنگجو ممکنہ طور پر الحضر پر بھی حملہ کر کے اُسے تباہ کر سکتے ہیں، جو صحرائی علاقے میں بالکل الگ تھلگ واقع ہے۔ الحضر موصل سے جنوب مغرب کی جانب تقریباً ایک سو کلومیٹر کی دُوری پر واقع ہے اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے میں ہے۔

2003ء میں عراقی دارالحکومت بغداد پر امریکی قیادت میں سرگرمِ عمل دستوں کے قبضے کے بعد بھی ثقافتی ورثے کی توڑ پھوڑ، لوٹ مار اور تباہی کے واقعات دیکھنے میں آئے تھے
2003ء میں عراقی دارالحکومت بغداد پر امریکی قیادت میں سرگرمِ عمل دستوں کے قبضے کے بعد بھی ثقافتی ورثے کی توڑ پھوڑ، لوٹ مار اور تباہی کے واقعات دیکھنے میں آئے تھےتصویر: Getty Images/AFP/Patrick Baz

احسان فتحی کا تعلق عراق سے ہے اور وہ آج کل اردن میں مقیم ہیں۔ وہ ماہرِ تعمیرات بھی ہیں اور ماہرِ آثار قدیمہ بھی۔ اُنہوں نے بھی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ’ابھی اور زیادہ تباہی آنے والی ہے‘:’’وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں، وہ الحضر کی قدیم عبادت گاہوں میں جا سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ یہ ملحد تھے اور پھر وہ آسانی سے وہاں سب کچھ اُڑا سکتے ہیں، اُنہیں کون روکے گا؟‘‘

فتحی کے مطابق جمعرات چھبیس فروری کو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں نے بارہویں صدی کی ایک مسجد کو بھی بارود لگا کر اُڑا دیا، ’کیونکہ اُس کے اندر ایک مقبرہ تھا‘۔

جہادی مذہبِ اسلام کی جو کٹر تشریح کرتے ہیں، اُس میں مجسموں، بُتوں اور مقبروں کو ابتدائی مسلم عقیدے کی پاکیزگی کو متاثر کرنے والے عناصر تصور کیا جاتا ہے۔ اس تشریح کے مطابق یہ مجسمے اور بُت گویا شرک کی علامت ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق یہ جہادی اپنی اس تشریح کے ساتھ محض ایک اقلیت کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ بہت سے مسلمان علماء، جن میں کٹر اسلام کی پیروی کرنے والے علماء بھی شامل ہیں، یہ دلیل دیتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام کے دور کے بُت بھی آج کے دور میں ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی سربراہ ارینا بوکووا نے جمعرات کو بتایا کہ اُنہوں نے موصل میں ثقافتی ورثے کی تباہی کے بعد عالمی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس بلائے جانے کی درخواست دی ہے۔ بوکووا نے اس واقعے کو ’ناقابلِ برداشت‘ اور عراق کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ قرار دیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید