1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نازیوں کے معذور متاثرین کی یاد میں نئی یادگار کا افتتاح

عاطف توقیر1 ستمبر 2014

نازی جرمنوں نے کے ہاتھوں گیس چیمبروں کے ذریعے ہلاک ہونے والے بیماروں اور معذوروں کی یاد میں جرمن دارالحکومت برلن میں ایک یادگار کا افتتاح منگل کے روز کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1D4x1
تصویر: AP

اداس آنکھوں والا نوجوان بینجمن تراؤب، جو سن 1914ء میں پیدا ہوا اپنے خاندان کی آنکھ کا تارہ اور اساتذہ کی نظر میں ایک انتہائی ذہین اور تابندہ لڑکا تھا، تاہم 16 برس کی عمر میں اس میں شیزوفرینیا کا مرض تشخیص کیا گیا۔ اسی مرض میں مبتلا ہونے کی بنا پر اس نوجوان کو نازیوں کی جانب سے ذہنی و جسمانی طور پر معذور قرار دیتے ہوئے گیس چیمبر میں ڈال کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اسی باعث قریب تین لاکھ افراد بشمول بچوں کو نازیوں نے اس طرح ہلاک کر دیا تھا۔

یہ میموریل برلن کے مشہور زمانہ فل ہارمونی کنسرٹ ہال کے بالکل قریب واقع ہے، جس میں تراؤب جیسے بے شمار ذہنی و جسمانی طور پر معزور افراد کو یاد کیا جائے گا۔

اے ایف پی کے مطابق، تراؤب سن 1931 میں ڈچ سرحد کے قریب واقع ذہنی صحت کے ایک ہسپتال میں داخل ہوا، جب کہ اس کے نو برس بعد جب نازی جرمن آمر حکمران اڈولف ہٹلر اپنے اقتدار کے عروج پر تھا، تراؤب کو تین سو کلومیٹر دور ہیسے صوبے میں واقع ایک مرکز منتقل کیا گیا۔ تین برس بعد سن 1941ء میں تراؤب کو قریبی علاقے ہادامار لے جایا گیا، جہاں موت کی یہ فیکٹری کام کیا کرتی تھی۔ یہیں تراؤب کو ایک گیس چیمبر میں ڈال کر کاربن مانو آکسائیڈ کے ذریعے ہلاک کیا گیا۔

Holocaust Mahnmal in Berlin Deutschland Flash-Galerie
اس سے قبل بھی برلن اور جرمنی میں متعدد مقامات پر نازی حکومت کے متاثرین کی یادگاریں موجود ہیںتصویر: AP

اس کے بعد تراؤب کے والدین کو ڈاکٹر کا ایک خط موصول ہوا، جس میں بتایا گیا تھا کہ تراؤب اچانک اور غیر متوقع زکام کی وجہ سے ہلاک ہو گیا۔ خط میں مزید تحریر تھا، ’’وہ سخت ذہنی بیماری کا شکار تھا۔ اس لیے اس کی موت کو ایک راحت سمجھیے۔‘‘

منگل دو ستمبر کو نازیوں کے اس ظالمانہ اقدام سے متاثرہ معذور افراد کی یاد میں برلن میں اس یادگار کے افتتاح میں متعدد سیاسی رہنما شریک ہو رہے ہیں، ان متاثرین میں سے ایک تراؤب کے بھتیجے ہارٹموٹ بھی شامل تھے۔

برلن کے مرکز میں ٹیئرگارٹن کے قریب نازیوں کے مظالم سے متاثرہ افراد کے لیے یہ چوتھی اور شاید آخری یادگار ہو گی۔ دیگر یادگاریں گزشتہ دس برسوں میں تعمیر کی گئی ہیں، جن میں ایک ہولوکاسٹ میں ہلاک کیے گئے یہودیوں، ہم جنس پرستوں اور روما نسل باشندوں کے حوالے سے ہیں۔

میموریل فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر اُوے نوئے مارکر کے مطابق، ’’ہزاروں مریضوں اور بے گھر افراد کی اس طرح ہلاکت نازی نیشنل سوشلسٹ حکومت کی جانب سے پہلا منظم قتل عام تھا۔‘‘

ان کا مزید کہنا ہے، ’’اس واقعے کو یورپی یہودیوں کے قتل عام کی راہ کا پہلا قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ ٹیئرگارٹن فور میں 60 نازی عہدیدار اور ان کے ہم نظریہ ڈاکٹر ٹو فور نامی خفیہ پروگرام پر کام کیا کرتے تھے، جس میں ذہنی اور جسمانی صحت کے ہسپتالوں سے مریضوں کو اٹھا کر ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ اس پروگرام کے مطابق ان افراد کی زندگی سے کوئی فائدہ نہیں تھا اور وہ معاشرے کے لیے ضروری نہیں۔

واضح رہے کہ جنوری 1940ء تا اگست 1941ء تک ڈاکٹروں نے چھ مختلف شہروں میں ستر ہزار سے زائد ذہنی و جسمانی معذوروں کو ہلاک کیا تھا۔ عوامی مظاہروں اور کیتھولک چرچ کے مطالبے پر ٹی فور پروگرام کی بندش کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم معذوروں کی ہلاکتوں کا سلسلہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک جاری رہا، جس میں مزید ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔