1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناروے: قتل عام کو تین برس بیت گئے

مقبول ملک22 جولائی 2014

اسکینڈے نیویا کے ملک ناروے میں دائیں بازو کے ایک انتہا پسند کے ہاتھوں قتل عام کے واقعے کو آج منگل کے روز ٹھیک تین برس ہو گئے۔ اس واقعے میں دارالحکومت اوسلو اور اس کے نواح میں ہونے والی خونریزی میں 77 افراد مارے گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/1Cgbo
تصویر: picture-alliance/dpa

ناروے کی تاریخ کے المناک ترین واقعات میں شمار کیا جانے والا یہ قتل عام 22 جولائی 2011ء کو ہوا تھا۔ ملزم آندرس بیہرنگ بریوک انتہائی دائیں بازو کی سوچ کا حامل ایک شدت پسند تھا۔ اس نے اس خونریز کارروائی کی ایک ایک تفصیل کی مکمل منصوبہ بندی کی تھی۔

جدید ناروے کی سرزمین پر دہشت گردی کے اس سب سے ہلاکت خیز واقعے میں ملزم بریوک نے پہلے اوسلو میں ملکی حکومت کے دفاتر والی عمارت کو بم حملے کا نشانہ بنایا۔ گورنمنٹ ہیڈ کوارٹرز پر اس حملے میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ پھر خود کار ہتھیاروں سے مسلح اس حملہ آور نے اوسلو شہر کے نواح میں یوٹویا کے جزیرے پر جا کر وہاں بائیں بازو کی سیاسی جماعت لیبر پارٹی کے نوجوانوں کے لیے اہتمام کردہ ایک یوتھ کیمپ کے شرکاء پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اس جزیرے پر فائرنگ کے نتیجے میں 69 افراد ہلاک ہوئے۔ اس قتل عام کے مجرم آندرس بیہرنگ بریوک کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور اگست 2012ء میں اسے 21 برس قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔

Urteil gegen Breivik in Oslo
قتل عام کا مجرم بریوکتصویر: Reuters

برداشت اور سماجی تنوع کے لیے جنگ

بائیس جولائی 2011ء کے واقعات کے تین برس پورے ہونے پر ناروے کی خاتون وزیر اعظم اَیرنا سولبرگ نے اوسلو میں حکومتی ہیڈ کوارٹرز کی عمارت میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ناروے ’کھلے پن، معاشرتی برداشت اور سماجی تنوع کے لیے جنگ‘ آئندہ بھی جاری رکھے گا۔ اس تقریب میں 77 ہلاک شدگان کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی اور ایک یادگار پر پھول بھی چڑھائے گئے۔

ناروے میں یہ انتہا پسندانہ حملے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اپنی نوعیت کے سب سے ہلاکت خیز واقعات تھے۔ ان حملوں کی تیسری برسی کے موقع پر وزیر اعظم سولبرگ نے اپنے پیش رو ژینس شٹولٹن برگ کو بھی خراج تحسین پیش کیا، جنہوں نے ان حملوں کے بعد کے برسوں میں حالات پر قابو پانے کے سلسلے میں بڑی باہمت قیادت کا مظاہرہ کیا تھا۔

Norwegen Andenken an Massaker von Utoya 22.7.2014
وزیر اعظم ایرنا سولبرگ قتل عام کی یادگار پر بھولوں کی چادر چڑھانے سے پہلےتصویر: Reuters

کلیسائی تقریب

بائیس جولائی کو ان حملوں کی تیسری برسی کے موقع پر اوسلو کے مشہور زمانہ کیتھیڈرل میں ایک میموریل سروس کا اہتمام کیا گیا، جس میں وزیر اعظم سولبرگ، ان کی کابینہ کے ارکان، اپوزیشن سیاستدانوں، ان حملوں میں زندہ بچ جانے والے افراد اور ہلاک شدگان کے لواحقین نے شرکت کی۔ بعد ازاں یہ شرکاء اوسلو کے نواحی جزیرے یوٹویا بھی گئے جہاں مجرم بریوک نے بہت بڑی تعداد میں نوعمروں اور نوجوانوں سمیت 69 افراد کو قتل کر دیا تھا۔

قتل عام کی وجہ

اس قتل عام کے سزا یافتہ مجرم آندرس بیہرنگ بریوک کی عمر اس وقت 35 برس ہے۔ وہ اس قتل عام کا مرتکب اس وقت ہوا تھا جب ناروے میں لیبر پارٹی کی حکومت تھی۔ مجرم کے بقول اس نے یہ کارروائی لیبر پارٹی کو سزا دینے کے لیے کی تھی۔ بریوک کے مطابق اس نے ایسا اس لیے کیا کہ اس وقت برسراقتدار لیبر پارٹی ناروے میں مسلمان تارکین وطن کی آمد اور کثیر الثقافتی سوچ کو روکنے میں ناکام رہی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید