1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نابیناؤں کے لیے ’فِنگر ریڈر‘، پڑھنے کا نیا آلہ ایجاد

عدنان اسحاق8 جولائی 2014

امریکی سائنسدانوں نے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے، جس کی مدد سے بصارت سے محروم یا کم بینائی کے حامل افراد بھی آسانی کے ساتھ کتابیں وغیرہ پڑھ سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/1CYFp
تصویر: Fotolia/Lisa F. Young

نابینا یا انتہائی کمزور بصارت والے افراد کے لیے یہ آلہ امریکا میں قائم میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں تیار کیا گیا ہے۔ اسے اگر شہادت کی انگلی پر پہن لیا جائے تو ایسے افراد کو کتابیں وغیرہ پڑھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اس آلے کو انگلی میں پہننے کے بعد ان افراد کی طبع شدہ الفاظ تک فوری رسائی ہو جائے گی۔ اس آلے کو ’فنگر ریڈر‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اسے ایک تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ اسے بالکل ایک انگوٹھی یا چَھلّے کی طرح انڈیکس فنگر میں پہنا جائے گا۔ اس میں ایک انتہائی چھوٹا سا کیمرہ لگا ہو گا، جس میں الفاظ کو اسکین کرنے کی صلاحیت موجود ہو گی۔ بعد ازاں یہ الفاظ آواز کی صورت میں سنائی دیں گے۔ اس طرح بہت تیزی سے کتابیں، ریستورانوں کے مینیو یا اسی طرح کی دیگر دستاویزات کا ترجمہ کیا جا سکے گا۔ اس کی مدد سے پڑھنا اتنا آسان ہے جیسے آپ اپنی انگلی کسی تحریر پر رکھے پڑھتے چلے جا رہے ہوں۔

Bildergalerie blinde Studenten in Bangladesch
تصویر: DW/Mustafiz Mamun

یہ سافٹ ویئر روئے شلکروٹ نے تیار کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ سافٹ ویئر انگلیوں کی حرکت کو ٹریک کرتے ہوئے الفاظ کو پہچانتا اور انہیں پروسیس کرتا ہے۔ اس آلے میں ایک سینسر بھی لگا ہوا ہے اور جیسے ہی قاری پڑھنا شروع کرتا ہے، تو وہ اسے وائبریشن کے ذریعے مطلع کر دیتا ہے۔

62 سالہ جیری بیریئر پیدائشی نابینا ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’فنگر ریڈر‘ عام زندگی میں انتہائی کارآمد ثابت ہو گا۔ ’’میں جب ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں، تو وہاں پر کبھی کبھار ایسے فارم بھی دیے جاتے ہیں، جنہیں پڑھنے کے بعد دستخط کرنا ہوتے ہیں۔‘‘ اس نے مزید کہا کمزور بصارت رکھنے والوں اور نابینا افراد کے لیے اور بھی آلے دستیاب ہیں لیکن ان میں سےکسی میں بھی پڑھ کر سنانے کی صلاحیت نہیں ہے۔

بیریئر پرکنز اسکول سے بھی منسلک ہیں۔ یہ ادارہ کم آمدنی والے نابینا اور سماعت سے محروم افراد میں مختلف طرح کے آلے تقسیسم کرتا ہے۔

پیٹی میئس ’ Pattie Maes‘ کا تعلق بھی میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’فنگر ریڈر‘ کا استعمال ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی تحریر پر انگلی رکھ کر اُسے پڑھ رہے ہوں اور یہ مارکیٹ میں دستیاب دیگر آلات کے مقابلے میں نہ صرف تکنیکی اعتبار سے زیادہ کارآمد ہے بلکہ انتہائی تیزی سے کام بھی کرتا ہے۔

اس آلے کا سافٹ ویئر تیار کرنے میں تین سال کا عرصہ لگا۔ ساتھ ہی اسے مختلف ڈیزائنز میں تیار کیا گیا اور آزمائشی عرصے کے دوران مختلف لوگوں کی رائے معلوم کی گئی۔ روئے شلکروٹ کہتے ہیں کہ اسے باقاعدہ متعارف کرانے سے قبل ابھی بہت سا کام کیا جانا باقی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کی قیمت مناسب رکھی جائے گی تاکہ تمام افراد اسے خرید سکیں۔

ایک اندازے کے مطابق صرف امریکا میں ہی 11.2 ملین افراد اس آلے سے مستفید ہو سکیں گے۔ روئے شلکروٹ نے مزید کہا کہ ’فنگر ریڈر‘ بریل سسٹم کا متبادل نہیں ہے بلکہ یہ نابینا افراد کی رسائی ان کتابوں تک بھی ممکن بنا دے گا، جو بریل میں دستیاب نہیں ہیں۔ بریل ایک ایسا نظام ہے، جس میں الفاظ سطح پر ابھرے ہوئے دانوں کی شکل میں ہوتے ہیں اور اس طرح نابیناؤں کے لیے کسی بھی تحریر کو پڑھنا ممکن ہو جاتا ہے۔

واضح رہے کہ آج کل مارکیٹ میں ایسے اسکینرز بھی دستیاب ہیں، جو تحریر کو اسکین کرنے کے بعد اس قابل بنا دیتے ہیں کہ اسے کمپیوٹر یا موبائل فون پر ایک خصوصی سافٹ ویئر کی مدد سے پڑھا جا سکتا ہے۔