نائجیریا میں مغوی طالبات کے ’والدین کی موت‘
23 جولائی 2014نائجیریا کے علاقے چبوک میں تین ماہ قبل 250 سے زائد طالبات کو بوکو حرام نے اغوا کر لیا تھا۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ لڑکیوں کے والدین میں بعض افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بوکو حرام کے شدت پسند چبوک کے قریبی علاقوں پر مسلسل حملے کر رہے ہیں اور سات مغوی لڑکیوں کے والد ان حملوں میں ہلاک ہو ہوئے ہیں۔
ایک کمیونٹی لیڈر پوگو بیتروس کا کہنا ہے کہ باقی چار افراد اپنی بیٹیوں کے اغوا کا صدمہ برداشت نہ کر پائے اور دل کا دورہ پڑنے کے باعث چل بسے۔ وہ کہتے ہیں: ’’دو مغوی بہنوں کا باپ کومے کی سی کیفیت میں مبتلا ہو گیا تھا۔ وہ ہر وقت اپنی بیٹیوں کا نام پکارتا رہتا تھا اور بالآخر زندگی کی بازی ہار گیا۔‘‘
رواں برس اپریل میں بوکو حرام کی جانب سے طالبات کے اغوا کے بعد سے نائجیریا کی حکومت کو شدید عالمی دباؤ کا سامنا ہے۔ اس کے ردِ عمل میں فرانس کے صدر فرانسوا اولانڈ نے کہا تھا: ’’جب دو سو سے زائد نوجوان لڑکیوں کو ظالمانہ حالات میں رکھا گیا ہے اور انہیں لونڈیاں بنا کر بیچا بھی جا سکتا ہے تو اس صورت میں کچھ پوچھنے کی گنجائش نہیں رہ جاتی بلکہ کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ستاون لڑکیاں اغوا کے چند روز بعد ہی فرار ہونے میں کامیاب رہیں تھی۔ مقامی حکام کے مطابق 219 طالبات تاحال بوکو حرام کی حراست میں ہیں جنہیں ابھی تک بازیاب نہیں کروایا جا سکا۔
نائجیریا کے صدر گُڈ لک جوناتھن نے منگل کو انہی لڑکیوں کے والدین سے ملاقات کی ہے۔ اس موقع پر ان لڑکیوں کی ہم جماعت وہ طالبات بھی موجود تھیں جو اغوا کے بعد کسی طرح بوکو حرام کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب رہیں۔
اس ملاقات میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ بعدازاں ایک صدارتی ترجمان نے بتایا کہ صدر جوناتھن نے مغوی لڑکیوں کو زندہ سلامت بازیاب کروانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
خیال رہے کہ نائجیریا میں طالبات کے اغوا پر دنیا بھر میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پاکستانی طالبان کے قاتلانہ حملے میں زندہ بچ جانے والی طالبہ ملالہ یوسف زئی نے بھی رواں ماہ نائجیریا کا دورہ کیا اور وہاں مغوی لڑکیوں کے والدین سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے نائجیریا کے صدر گُڈ لک جوناتھن سے بھی ملاقات کی۔