نائجیریا میں صدارتی انتخابات
28 مارچ 2015پولنگ کے آغاز میں التواء کی خبریں موصول ہوئی ہیں تاہم نائجیریا کے انتخابی کمیشن کے ترجمان کایوڈے ایڈووو کے مطابق رائے دہی وقت کے مطابق صبح کے وقت شروع ہو چکی تھی۔
ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ کانو، لاگوس اور ابوجہ میں انتخابی عملے اور مواد کے بعض پولنگ اسٹیشنز پر تاخیر سے پہنچنے کے باعث انتخابی عمل کا آغاز تاخیر سے ہوا۔
صدر گُڈ لک جوناتھن دوسری مدت کے لیے صدر بننے کی کوششوں میں ہیں۔ ان کے مقابل اپوزیشن کے انتہائی مضبوط سمجھے جانے والے امیدوار محمدو بوہاری ہیں۔
ان انتخابات کو صدر جوناتھن کی چار سالہ کارکردگی پر ایک ریفرینڈم بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس دوران شدت پسند اسلامی تنظیم بوکو حرام افریقہ کے اس سب سسے زیادہ گنجان آباد ملک میں انتہائی متحرک ہو چکی ہے، اور ملکی معیشت عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کے باعث تنزلی کا شکار ہے۔
بوہاری ایک سابق فوجی حکمران ہیں جن کی شہرت کرپشن کے خلاف زبردست کارروائی کرنے والے ایک رہنما کی ہے۔ ان کا صدر جوناتھن کے بارے میں کہنا ہے کہ صدر نے حکومتی سطح پر، اور بالخصوص توانائی کے شعبے میں، بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کچھ زیادہ نہیں کیا۔
انتخابات چودہ فروری کو ہونا تھے تاہم ملک میں سلامتی کی مخدوش صورت حال اور بوکو حرام کے متعدد شہروں اور قصبوں پر حملوں کے باعث ان کو ملتوی کرنا پڑا تھا۔
انتخابات کے موقع پر ملک بھر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ بوکو حرام کی جانب سے پولنگ اسٹیشنز پر حملوں کا بھی خطرہ ہے۔
مسلمان اکثریت کے حامل شمالی نائجیریا کو بوہاری اور ان کی ’’آل پروگریسوز کانگریس‘‘ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ جوناتھن اور ’’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ کو مسیحی اکثریتی جنوب میں حمایت حاصل ہے۔
صدر جوناتھن کے آبائی شہر اوٹئوکے سے تعلق رکھنے والے بیالیس سالہ لارینس بانیگو کا کہنا کہ وہ صدر جوناتھن کو ایک بار پھر صدر بنتا دیکھنا چاہتے ہیں: ’’یہ ہمارے فرزند کے لیے ایک عظیم دن ہے۔ انہوں نے اچھا کام کیا ہے اور وہ دوسری مدت کے لیے صدر بننے کے حق دار ہیں۔‘‘
بوہاری کے شہر داؤرا میں ایک ووٹر مصطفیٰ عثمان کا کہنا ہے کہ صدر جوناتھن کے چار سالہ اقتدار میں ملک کو سکیورٹی کے شدید مسائل کا سامنا رہا: ’’ہم اس امیدوار کو صدر دیکھنا چاہتے ہیں جو ہماری جانوں کی حفاظت کر سکے اور اس ملک کی سالمیت کا دفاع کر سکے۔‘‘
shs/ab