1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نائجیریا: دو لڑکیوں کے خودکش حملے، کم از کم 60 افراد ہلاک

امتیاز احمد26 نومبر 2014

نائجیریا میں ہونے والے دو مختلف خودکُش حملوں کے نتیجے میں کم از کم ساٹھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ حکام کے مطابق یہ دونوں خودکُش حملے دو لڑکیوں نے مائیدو غوری کی ایک مارکیٹ میں کیے۔

https://p.dw.com/p/1DtkY
Anschlag in Jos, Nigeria
تصویر: picture alliance / AP Photo

اطلاعات کے مطابق بورنو ریاست کے دارالحکومت میں پہلے ایک حملہ کیا گیا، جس کے بعد وہاں لوگ اکٹھے ہوئے اور پھر دوسرا خود کُش حملہ ہوا۔ حکام نے اس حملے کا الزام شدت پسند تنظیم بوکو حرام پر عائد کيا ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق حملہ آور برقعہ پوش تھیں۔ ہلاکتوں کے بارے میں ابھی تک متضاد اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ مختلف نیوز ایجنسیوں کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد چالیس سے 70 کے درمیان ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

چار عینی شاہدین کے مطابق سب سے پہلے ایک برقعہ پوش خاتون تجارتی مارکیٹ میں داخل ہوئی اور اس نے خود کو دھماکا خیز مواد سے اڑا لیا اور جونہی لوگ امدادی کاموں کے لیے اکھٹے ہوئے ایک اور زور دار دھماکا ہوا۔

مائیدو غوری کے مرکزی ہسپتال میں کام کرنے والی ایک نرس نے بتایا ہے کہ ابھی تک ہسپتال میں چالیس لاشیں لائی جا چکی ہیں۔ مائیدو غوری کے یونیورسٹی ٹیچنگ ہسپتال میں کام کرنے والے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ ان کے پاس لائے گئے زخمیوں میں سے دو درجن کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ابھی تک نائجیریا کے حکام نے ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی بیان جاری کیا ہے۔

ابھی تک کسی بھی گروپ نے ان دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ ان حملوں کے پیچھے شدت پسند گروہ بوکو حرام کا ہاتھ ہو سکتا ہے، جو ملک میں گزشتہ پانچ برسوں سے ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ پہلے بھی اس گروپ سے تعلق رکھنے والی متعدد خواتین خودکش حملے کر چکی ہیں۔ بوکو حرام ملک کے ایک وسیع رقبے پر پہلے ہی کنٹرول حاصل کر چکا ہے اور مزید شہروں پر قبضے کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ دریں اثنا اس جہادی تنظیم نے نائجیریا کے شمال مغرب میں واقع ایک اور شہر پر قبضہ کر لیا ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ملکی فوج کو بوکو حرام کا مقابلہ کرنے کے لیے وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔

افریقی امور کے ماہر رائن کمنگز کہتے ہیں کہ نائجیریا کی فوج کو کئی شعبوں میں مسائل کا سامنا ہے: ’’فوج کو نقل و حمل میں مشکلات درپیش ہیں جبکہ ساز وسامان اور افرادی قوت کی قلت کے علاوہ اشیاء کی ترسیل بھی اِن کے لیے ایک مسئلہ ہے۔‘‘

نائجیریا کی آبادی 168ملین ہے اور یہ افریقہ کی سب سے بڑی اقتصادی قوت اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے۔ ماہر کمنگز سوال کرتے ہیں کہ تیل کی دولت سے مالا مال یہ ملک انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں کس طرح کمزور ہو سکتا ہے؟ ’’دنیا کے کسی بھی ملک میں آبادی کے لحاظ سے فوجیوں کا تناسب اتنا کم نہیں ہے جتنا نائجیریا میں ہے۔ اس کے علاوہ بوکو حرام سلامتی کے حوالے سے واحد خطرہ نہیں ہے۔ نائجر ڈیلٹا میں تیل کے زیادہ تر کنویں ہیں اور اس علاقے میں بھی صورتحال بہت کشیدہ ہے۔ ساتھ ہی ملک میں نسلی اور مذہبی تنازعات بھی اپنے عروج پر ہیں۔