میرکل کا امیگریشن اصلاحات پر غور کا اعلان
3 مارچ 2015انگیلا میرکل کی مخلوط حکومت میں شامل جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SPD) کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی میں آنے کے خواہش مند تارکین وطن کے لیے پوائنٹ سسٹم متعارف کرایا جائے۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے میرکل کا کہنا تھا، ’’پہلے مجھے خود اس پر اپنی رائے قائم کرنا ہو گی۔۔۔ پھر دیکھتے ہیں کہ ہم امیگریشن کے حوالے سے کیا کر سکتے ہیں۔‘‘
جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ اس وقت حکمران جماعتوں کے مابین مخلوط وفاقی حکومت کے قیام کے لیے جو معاہدہ طے پایا تھا، امیگریشن سے متعلق ممکنہ اصلاحات اس کا حصہ نہیں تھیں، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی جماعتوں میں اس بارے میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ جرمنی میں بڑی تعداد میں آنے والے غیر ملکی پناہ گزینوں کی وجہ سے مسائل موجود ہیں، خاص طور پر علاقائی حکومتوں کے لیے، انگیلا میرکل نے کہا کہ یہ معاملہ برلن حکومت کے ایجنڈے پر موجود ہے۔
جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں میں SPD کے رہنما تھوماس اوپرمان نے امیگریشن کے حوالے سے نئے مجوزہ قوانین کا ایک مسودہ تیار کیا تھا۔ اس میں دراصل کینیڈا کی طرز پر پوائنٹ سسٹم متعارف کرانے کی بات کی گئی ہے تاکہ لاکھوں تربیت یافتہ ورکرز کو جرمنی آنے کی ترغیب دی جا سکے۔ اوپرمان کے مطابق جرمنی کو ہر سال تین سے چار لاکھ تک تربیت یافتہ تارکین وطن کی ضرورت ہے۔
تاہم میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (CDU) سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور مخلوط حکومتی جماعتوں کے ساتھ تعلقات کے ذمہ دار مشائیل گروسے بروئمر کے مطابق، ’’یہ پوائنٹ سسٹم اس مقصد کے لیے ضروری نہیں ہے کہ غیر ملکی ورکرز جرمنی کی طرف متوجہ ہوں۔‘‘
گروسے بروئمر کے مطابق، ’’ہمیں نئے قانون کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے پاس پہلے ہی بہت اچھا امیگریشن قانون موجود ہے۔۔۔ تاہم ہم موجودہ قانون میں اصلاحات کر سکتے ہیں۔‘‘
سی ڈی یو ہی سے تعلق رکھنے والے جرمن وزیر داخلہ تھوماس دے میزیئر نے بھی آج منگل کے روز یہی کہا کہ اس شعبے میں کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں ہے۔
جرمنی میں جنگ سے متاثرہ علاقوں سے آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد میں اضافے پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جرمن پولیس کی طرف سے آج منگل کے روز بتایا گیا کہ ملک میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور 2014ء کے دوران ایسے 57 ہزار کیسز ریکارڈ کیے گئے۔ یہ تعداد 2013ء کے مقابلے میں 75 فیصد زیادہ ہے۔