میانمار میں اعلیٰ سیاسی، فوجی قیادت کی تاریخی ملاقات کل جمعے کو
30 اکتوبر 2014ینگُون سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق میانمار کے صدر اور فوج کے سربراہ کی ملکی سیاسی قیادت سے اس ملاقات کا پس منظر اس کم عمر جمہوریت میں پائی جانے والی وہ خلیج ہے، جو اگلے سال ہونے والے انتخابات سے پہلے مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔
یہ مذاکرات اپنی نوعیت کے اولین مذاکرات ہوں گے۔ اس موقع پر اپوزیشن کی خاتون رہنما اونگ سان سُوچی کو پہلی مرتبہ ملکی مسلح افواج کے بہت طاقتور سمجھے جانے والے سربراہ، سینئر جنرل مِن اونگ ہلَینگ سے ملاقات کا موقع بھی ملے گا۔ نوبل امن انعام یافتہ سیاستدان سُوچی کی 2012 میں ملکی پارلیمان کی رکن منتخب ہونے کے بعد سے کوشش تھی کہ ان کی سینئر جنرل ہلَینگ سے ملاقات ہونی چاہیے لیکن اب تک یہ ملاقات نہیں ہو سکی۔
کل جمعہ اکتیس اکتوبر کو ہونے والی اس ملاقات کا انعقاد میانمار کے دارالحکومت نِپیادیو میں ہو گا اور اس کا اہتمام بہت جلدی میں کیا گیا ہے۔ اس کا پس منظر نسلی اقلیتی آبادی سے تعلق رکھنے والے مسلح باغیوں کے ساتھ قیام امن سے متعلق وہ پیچیدہ عمل بھی ہے، جو اب اپنی ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
اس کے علاوہ میانمار میں اپوزیشن رہنما سُوچی کی پارٹی کی اس مہم کی وجہ سے بھی کشیدگی پائی جاتی ہے، جس کی پانچ ملین شہریوں نے اپنے دستخطوں کے ساتھ حمایت کی ہے اور جس کے ذریعے ملکی آئین میں ترمیم کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ آئین میں ترمیم کا مطالبہ اس حوالے سے کیا جا رہا ہے کہ میانمار کی سیاست میں ملکی فوج کا بہت زیادہ اثر و رسوخ کم کیا جانا چاہیے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے اس ملک میں فوج 49 سال تک بڑے ہی ظالمانہ اور جابرانہ انداز میں حکمران رہی ہے۔
میانمار کے دارالحکومت میں کل کے اسی تاریخی اجلاس کے بارے میں ماہرین امریکی صدر باراک اوباما کے میانمار کے اس دورے کا حوالہ بھی دے رہے ہیں، جو اگلے مہینے عمل میں آئے گا۔ باراک اوباما ایک علاقائی سمٹ کے لیے نومبر میں میانمار جائیں گے۔
اس تناظر میں میانمار میں انسانی حقوق کی خراب صورت حال کے بارے میں امریکی تشویش بھی اہم ہے۔ اس تشویش کے اسباب میں وہاں صحافیوں کی جیلوں میں بندش، بے وطن روہِنگیا مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں اور وہ نسلی اقلیتیں بھی شامل ہیں جن کا سرکاری دستوں کے ساتھ خونریز تنازعہ جاری ہے۔
میانمار کے موجودہ صدر تھین سین خود بھی ایک سابق فوجی جرنیل ہیں۔ لیکن وہ 2011 میں صدارتی عہدے پر فائز ہونے کے بعد سے اب تک ملک میں وسیع تر اصلاحات بھی متعارف کرا چکے ہیں۔