1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہینوں پہلے ہی بیماریوں اور وباؤں کا پتا چل جائے گا

عدنان اسحاق16 فروری 2015

ایک تازہ تحقیق کے مطابق سائسدان اب سیٹیلائٹ کے ذریعے وائرس اور طفیلیہ کیڑوں کا تعاقب کر سکیں گے۔ اس طرح کئی ماہ قبل ہی معلوم ہو جائے گا کہ کس علاقے میں کونسی بیماری یا کونسی وبا پھیلنے والی ہے۔

https://p.dw.com/p/1EcY2
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Amador

آسٹریلیا میں کینبرا یونیورسٹی کے صحت سے متعلق ایک شعبے کے سربراہ آرچی کلیمنز نے بتایا کہ ریموٹ سینسنگ کی مدد سے اُن مقامات کی نشاندہی ہو جائے گی کہ جہاں بیماریاں پنپ رہی ہوں گی۔ ’’یہ معلومات فیصلہ ساز اداروں کے لیے کارآمد ہو گی تاکہ وسائل کو اسی جگہ پر استعمال کیا جائے جہاں ان کی اشد ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘‘ خاص طور پر کم ترقی یافتہ ممالک میں ٹروپیکل یا گرم اور جنگلاتی علاقوں میں طفیلیہ کیڑوں کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں سے ہر سال کئی لاکھ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بیماریاں تو انتہائی خطرناک ہوتی ہیں۔

امریکی ریاست کیلی فورنیا میں سان خوسے میں ماہرین سے خطاب کرتے ہوئے آرچی کلیمنز نے مزید بتایا کہ سائنسدان اُس ڈیٹا کو استعمال کر رہے ہیں، جو اُنہیں درجہ حرارت، مٹی میں نمی، زمین پر موجود پودوں کی مختلف اقسام کے علاوہ بارش یا برف باری کے بعد سیٹیلائٹ کے ذریعے موصول ہوتا ہے۔’’ یہ لوگ اس ڈیٹا کا ایک کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے جائزہ لیتے ہیں۔ اس کے ذریعے ایک ایسا نقشہ تیار کر لیا گیا ہے، جو اُن ممالک میں باآسانی دستیاب ہو گا، جہاں بیماریوں کے انسداد کے حوالے سے وسائل محدود ہیں۔‘‘

Brasilien Forschung Mücke
تصویر: Fiocruz/Gutemberg Brito

امریکی محقق کینتھ لنتھکم نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس طرح سائنسدان ماحولیات اور خاص طور پر عالمی آب و ہوا کے اعداد و شمار کو استعمال کرتے ہوئے متعدد بیماریوں کے پھیلنے سے پہلے ہی ان کے بارے میں انتباہ جاری کر دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا ’’سیٹیلائٹ سے حاصل ہونے والا ڈیٹا مچھروں سے پھیلنے والی بیماروں کے اضافے کی روک تھام میں بہت کارآمد ہو سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح ’’ ہم دو سے پانچ مہینے قبل ہی لوگوں کو ممکنہ بیماریوں سے آگاہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے تاکہ قبل از وقت ہی احتیاطی تدابیر اختیار کر لی جائیں۔‘‘

کینتھ لنتھکم نے رفٹ ویلی بخار کے بارے میں بتایا، ’’میرے اور میری ٹیم کے تجربات کے مطابق یہ بخار گائے، بکری یا دنبوں کو ہوتا ہے اور مچھر متاثرہ جانوروں سے اسے انسانوں میں منتقل کرنے کا سبب بنتے ہیں۔‘‘ یہ بیماری افریقہ اور جزیرہ نما عرب کے علاقوں میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ سیلاب یا شدید بارشوں کے بعد مچھروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو سیٹیلائٹ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی مدد سے اس بارے میں چند ماہ پہلے ہی خبردار کیا جا سکتا ہے۔