مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے یورپ اور افریقہ کے درمیان نئی حکمت عملی پر اتفاق
28 نومبر 2014یورپ اور اس کے بحیرہء روم کے ہمسایہ ممالک کے درمیان ’رباط اقدامات‘ کہلانے والے ان مذاکرات میں 58 ممالک کے وزراء کی شرکت میں تارکین وطن کے معاملے پر باہمی تعاون اور رابطوں میں بڑھوتی سمیت متعدد امور پر اتفاق کیا گیا ہے۔ سنیگال کے وزیرداخلہ عبدالے داؤدا دیالو نے اس اجلاس کے نتائج کو ’نمایاں پیش رفت کی جانب اہم قدم‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے تارکین وطن کے معاملے کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔
دیالو نے بتایا کہ مہاجرین کے مسئلے کی وجہ سے یورپی اور افریقی اقوام مشترکہ طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’افریقہ کے لیے یہ کوئی پسندیدہ بات نہیں کہ اس کے بہترین لوگ اپنے اپنے ممالک چھوڑیں اور دوسری جانب یورپی ممالک ان مہاجرین کے اپنے ہاں پہنچنے کی صورت حال پر پریشان ہیں کہ وہ ان سے کیسے نمٹیں۔ سو یہ مسئلہ ہم سب کا ہے۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسی تناظر میں ان وزراء نے ترک سکونت کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل تربیت دینے پر اتفاق کیا ہے۔ جس میں ایک طرف ان مہاجرین کے سفر کے آغاز کو روکنے سمیت دیگر اقدامات کیے جائیں گے جب کہ یورپی ممالک اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ وہ افراد جو ان ممالک تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں، ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
یہ بات اہم ہے کہ مہاجرین کے مسئلے کا سب سے زیادہ شکار ملک اٹلی ہے، جہاں صرف رواں برس خستہ حال کشتیوں کے ذریعے یورپ میں داخلے کی کوشش کرنے والے ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کو بحیرہء روم کی بے رحم موجوں سے بچایا گیا، جب کہ درجنوں اس کوشش میں ہلاک بھی ہوئے۔
اسی تناظر میں اٹلی میں فسادات بھی دیکھے گئے ہیں، جہاں روم کے ایک مضافاتی علاقے میں مقامی افراد نے مہاجر بستیوں پر حملے کیے۔ مراکش کے وزیرخارجہ انیس بیرور نے کہا کہ یہی وہ معاملہ ہے جس کی سنگینی کم کر کے ہم تشدد روکنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یورپی رہنماؤں کو بھی اپنے ہاں یہ وضاحت کرنا چاہیے کہ مہاجرین کی آمد سے انہیں قبول کرنے والے ممالک کو متعدد فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ ’انہیں اپنے عوام کو یہ بتانا چاہیے کہ کنٹرولڈ امیگریشن کے بہت سے فوائد ہیں۔ مہاجرین کا معاملہ بالکل پانی جیسا ہے کہ اگر نہ ہو تو زندگی ممکن اور اگر بہت زیادہ ہو تو یہ سیلاب پیدا کر دیتا ہے۔‘
یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا ہے، جب گزشتہ ویک اینڈ پر اطالوی حکام نے بتایا تھا کہ صرف 48 گھنٹوں کے اندر بحیرہء روم میں مختلف کشتیوں پر سوار آٹھ سو افراد کو بچایا گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے اور درجنوں افراد کی ہلاکت کے تناظر میں غیرقانونی تارکین وطن کے معاملے پر سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ انسانی زندگیوں کا ضیاع روکا جا سکے۔