1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ميرا کيا قصور ہے‘

عاصم سليم17 دسمبر 2014

يونيسف کی جرمن شاخ نے ’رواں سال کی سب سے بہترين فوٹو‘ کا اعزاز دو جرمن نوجوانوں کی طرف سے کھينچی گئی ايک ايسی تصوير کو ديا ہے، جس ميں جنسی مقاصد کے ليے سياحت کے معاملے کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1E6I4
تصویر: Insa Hagemann/Stefan Finger, Agentur laif

’يونائيڈ نيشنز چلڈرنز فنڈ‘ يا يونيسف جرمنی کی جانب سے سال رواں يعنی 2014ء کی سب سے اعلیٰ فوٹو کا ايوارڈ اُن دو جرمن نوجوانوں کو ديا گيا، جنہوں نے فلپائن ميں ايک ايسی تصوير کھينچی جس کے ذريعے جنسی مقاصد کے ليے سياحت اور بن باپ کے بچوں کے مسائل کی عکاسی ہوتی ہے۔

ايوارڈ يافتہ فوٹو انسا ہاگے مان اور اسٹيفان فنگر نے اِسی سال اپريل ميں کھينچی تھی۔ يہ دونوں وانا ہيو لو‘ يا کيا محبت چاہيے کے عنوان تلے اپنے ايک پراجيکٹ کے سلسلے ميں تصاوير بنانے کے ليے چار ہفتوں کے ليے ايشيائی ملک فلپائن گئے تھے۔ اُنہوں نے وہاں جنسی مقاصد کے ليے سياحت کے موضوع پر تصاوير بناتے ہوئے ’ڈيوائن‘ نامی ايک چھوٹی بچی کی تصوير کھينچی، جو تصوير ميں موجود ديگر فلپائنی بچوں سے ذرا ہٹ کر الگ کھڑی ہے۔ تصوير کے آگے کے حصے ميں جہاں فلپائنی بچے کھيل ميں مصروف ہيں، وہيں تصوير کے پس منظر ميں ڈيوائن کی آنکھيں رشک سے بھری ہيں۔

ايوارڈ يافتہ فوٹو انسا ہاگے مان اور اسٹيفان فنگر نے اِسی سال اپريل ميں کھينچی تھی
ايوارڈ يافتہ فوٹو انسا ہاگے مان اور اسٹيفان فنگر نے اِسی سال اپريل ميں کھينچی تھیتصویر: picture-alliance/dpa/B.v. Jutrczenka

ڈيوائن کے بال بھوری رنگت کے ہيں اور وہ ’اينجلز سٹی‘ ميں بظاہر الگ ہی نظر آتی ہے۔ اُس کا والد ايک آسٹريلوی شخص ہے، جو ڈيوائن کی والدہ سے بذريعہ انٹرنيٹ مل کر محض جنسی مقاصد کے ليے سياحت کرنے فلپائن آيا تھا۔ اپنے مقصد کے حصول کے بعد اُسے اِس بچی سے کچھ لينا دينا نہيں اور وہ واپس اپنے وطن جا چکا ہے۔

فوٹوگرافر انسا ہاگے مان کے مطابق وہاں کی سڑکوں اور محلے ميں ڈيوائن کو بری نظر سے ديکھا جاتا ہے۔ فلپائن ميں گوری رنگت اور نيلی آنکھوں والے بچوں کے بارے ميں اکثر ايسا ہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ کسی جسم فروش کی اولاد ہيں اور اِسی ليے اُنہيں اچھی نگاہ سے نہيں ديکھا جاتا۔ اکثر اوقات ايسے بچوں کی والدہ جسم فروش نہيں ہوتيں۔ وہ صرف کسی غير ملکی سے ايک نيک اور اچھا رشتہ چاہتی ہيں تاکہ غربت اور مايوسی سے بھری اپنی زندگياں بدل سکيں۔

2014ء کی سب سے اعلیٰ فوٹو کا ايوارڈ جيتنے والے فوٹوگرافروں انسا ہاگے مان اور اسٹيفان فنگر نے کہا ہے کہ وہ فلپائن ميں اِن بچوں اور اُن کے اہل خانہ سے رابطے ميں رہنے کا ارادہ رکھتے ہيں۔ فنگر کے بقول وہ ايسے بچوں کی کہانياں اپنے دلوں ميں ليے پھرتے ہيں اور دس برس بعد دوبارہ فلپائن کا دورہ کرنے والے ہيں تاکہ وہ يہ ديکھ سکيں کہ يہ بچے ايک دہائی بعد زندگی کے کس موڑ پر کھڑے ہيں۔