1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر اقوام متحدہ کی تاریخی رپورٹ

عاطف توقیر31 مارچ 2014

اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین اور تاریخی رپورٹ میں موسمیاتی تبدیلیوں کے زمین پر مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BYpg
تصویر: AFP/Getty Images

اس رپورٹ کے مطابق ان تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں مسلح تنازعات، بھوک، سیلاب اور مہاجرت جیسے مسائل بھی شدت اختیار کر جائیں گے۔

پیر کے روز جاری کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر گرین ہاؤس یا سبزمکانی گیسوں کے اخراج میں کمی نہ کی گئی اور کرہء ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا تو اس سے ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچے گا، جس کے مالیاتی اثرات کئی ٹریلین ڈالر کے برابر ہو سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہےکہ زمین کے درجہء حرارت میں ہر ایک ڈگری کا اضافہ دنیا بھر میں ماحولیاتی تباہی میں شدت کا باعث بنے گا اور اس کی وجہ سے نہ صرف املاک کو نقصان پہنچے گا بلکہ انسانی، حیوانی اور نباتاتی صحت پر بھی نہایت مضر اثرات مرتب ہوں گے۔

رپورٹ میں دنیا بھر کے پالیسی سازوں کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’درجہء حرارت میں اضافے سے پیدا ہونے والے اثرات شدید، تباہ کن اور ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔‘

یہ رپورٹ سن 1988ء میں قائم کردہ انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج کا دوسرا باب ہے۔ اس تنظیم کا کام غیرجانبدارانہ اور سائنسی حقائق کے مطابق دنیا بھر کی حکومتوں کی رہنمائی کرنا ہے۔

Klimakonferenz Warschau 21.11.2013 Ban Ki Moon
اقوام متحدہ کی کوششوں کے باوجود ابھی تک موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی عالمی معاہدہ طے نہیں پا سکا ہےتصویر: Reuters

جاپانی شہر یوکوہاما میں پانچ روز تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد آئی پی سی سی کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے حوالے سے اب تک کی سخت ترین تنبیہ جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں صدی میں زمینی درجہ حرارت میں صفر اعشاریہ تین سے چار اعشاریہ آٹھ ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے سمندروں میں پانی کی سطح 26 تا 82 سینٹی میٹر بلند ہو سکتی ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر صنعتی انقلاب سے قبل کے مقابلے میں زمینی درجہ حرارت دو درجے سینٹی گریڈ بڑھا، تو اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کی کل آمدن کا صفر اعشاریہ دو فیصد تا دو فیصد تک حصہ خرچ ہو گا۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی کوشش ہے کہ سن 2015 تک کوئی ایسا عالمی معاہدہ طے پا جائے، جو زمینی درجہ حرارت کو صنعتی انقلاب سے قبل کے دور کے درجہء حرارت کے مقابلے میں رواں صدی میں ہونے والے اضافے کو دو درجے سینٹی گریڈ تک روکنے سے متعلق ہو۔

اس سلسلے میں پچھلا اوور ویو سن 2007ء میں شائع کیا گیا تھا، جس کے بعد دنیا بھر میں اس مطالبے میں شدت آئی تھی کہ اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی سطح پر کوئی مربوط معاہدہ ناگزیر ہے۔ اسی بابت سن 2009ء میں کوپن ہیگن میں موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر ایک عالمی سربراہی کانفرنس بھی منعقد ہوئی تھی، تاہم اس کانفرنس میں کوئی پیش رفت نہ ہو پائی۔

اُس کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک بشمول چین نے سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے حوالے سے عالمی مطالبات مسترد کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس مسئلے پر ترقی یافتہ ممالک قائدانہ کردار ادا کریں کیوں کہ چین اور دیگر ترقی پذیر ممالک اپنی شرح نمو اور صنعتی ترقی کو داؤ پر نہیں لگا سکتے۔

ادھر امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک قانونی بل کی منظوری امریکی کانگریس میں ریپبلکن اراکین کی مخالفت کی وجہ سے کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے۔ ان قانون سازوں کا موقف ہے کہ موسمیاتی تبدیلوں کی روک تھام کے لیے وائٹ ہاؤس کے تجویز کردہ نکات سے ملکی اقتصادیات پر بوجھ پڑے گا۔