1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی کا ایک سال: اصلاحاتی ایجنڈا ایک سنگم پر

کشور مصطفیٰ21 مئی 2015

مودی حکومت کی اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بھارتی اقتصادیات کی دوبارہ سمت بندی کرتے ہوئے اس کا رُخ زیادہ تجارت کی طرف کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FTl7
تصویر: picture alliance/AP Images

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر نریندر مودی کو بھارتی وزیر اعظم بنے ایک سال کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے۔ وزارت عظمیٰ کے مسند تک پہنچنے کے لیے مودی نے دیگر وعدوں کے علاوہ سب سے زیادہ زور و شور سے ملکی معیشت کی بحالی کا وعدہ کیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے ’میک اِن انڈیا‘ مہم چلا کر عوام کو جو سبز باغ دکھائے وہ کہاں تک سچ ہوتے دکھائی دیتے ہیں اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے گابریئل ڈومنگیز نے ایک جائزہ پیش کیا ہے۔

گزشتہ برس بھارتی عوام کی اپنے نو منتخب وزیر اعظم سے توقعات بہت اونچی تھیں۔ مودی اور اُن کی جماعت بی جے پی مغربی بھارتی ریاست گجرات میں 12 سال تک بر سر اقتدار رہنے کے بعد 2014ء کے الیکشن میں بھاری کامیابی حاصل کر کے دہلی میں پارلیمانی ایوان تک پہنچی تھی۔ مودی کو دیگر چیلنجز کے ساتھ ساتھ بحران کی شکار ملکی معیشت کی بحالی کے لیے بڑا مینڈیٹ ملا تھا۔ کیا مودی گزشتہ 12 مہینوں کے دوران بھارت کے لیے ایک مضبوط اقتصادی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوپائے؟ اس بارے میں تجزیہ کاروں کے ملے جُلے تبصرے سامنے آ رہے ہیں۔ جہاں زیادہ تر کا کہنا ہے کہ مودی نے گزشتہ حکومت سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، وہاں دیگر مبصرین کے خیال میں مودی حکمرانی اور تجارتی معاملات میں کوئی بڑی تبدیلی لانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو پائے۔

Staatsbesuch Indiens premierminister Modi besucht China
مودی چین کے دورے پرتصویر: picture-alliance/landov

صحیح سمت میں اقدامات

مودی حکومت کی اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بھارتی اقتصادیات کی دوبارہ سمت بندی کرتے ہوئے اس کا رُخ زیادہ تجارت کی طرف کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر فروری میں مودی کا جو پہلا ملکی بجٹ سامنے آیا تھا اُس میں انفرا اسٹرکچر یا بنیادی ڈھانچے، ایک عالمگیر سوشل سکیورٹی اسکیم، اور کارپوریٹ ٹیکس میں بے مثال کٹوتی یعنی آئندہ چار سال کے لیے 25 فیصد کی کٹوتی جیسے اقدامات شامل تھے۔ ماہرین اقتصادیات نے ان تمام اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے انہیں صحیح اُٹھائے جانے والے اقدامات قرار دیا ہے۔

مودی کے حالیہ دورہ چین کے دوران قریب 22 بلین ڈالر کے تجارتی اور سرمایہ کاری سے متعلق معاہدے ہوئے۔ مودی نے ’مائننگ لائسنس‘ یا کان کُنی کی اجازت ناموں کے نیلام سے متعلق جو دو بل پاس کروائے ہیں اُن سے بھارت کے کان کنی کے سیکٹر کو مزید مستعد اور لبرل بنانے کا رستہ ہموار ہوا ہے۔ حکومت نے انشورنس اور دفاع جیسے شعبوں میں براہ راست سرمایہ کاری کو سہل بناتے ہوئے ڈیزل کی قیمت پر سے کنٹرول ختم کیا ہے اور براہ راست سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے. آئندہ مالی سال میں بھارتی پیداوار میں 8.5 فیصد تک کی تیز رفتار ترقی کی امید کی جا رہی ہے۔

اندورن خانہ مزاحمت اور چیلنجز

نریندر مودی کی حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈا کو گزشتہ چند ماہ کے دوران متعدد رکاوٹوں کا سامنا رہا ہے۔ مثال کے طور پر بی جے پی کو پارلیمان کے ایوان بالا میں شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے، جہاں انہیں اکثریت حاصل نہیں ہے۔ اس لیے وہ چند اہم اقدامات لاگو کرنے کے لیے مختصر مُدتی آرڈینینس کے استعمال سے مجبور رہی ہے۔ خاص طور سے زمین کے حصول سے متعلق وہ قانون جس کے تحت صنعتوں کے لیے زمین کے حصول کو آسان تر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان اقدامات کے باعث بھارت کے سیاسی حلقوں کی طرف سے مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے خلاف آپوزیشن دھڑوں نے ایکا کر لیا۔ چند تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کا مخدوش بنیادی ڈھانچہ اور وہاں کسانوں یا کاشتکاروں اور کمپنیوں کے مابین صنعتی پراجیکٹس کے لیے زمین کی حصولی سے متعلق پایا جانے والا بحران اور اختلافات ہی دراصل ملک کی جی ڈی پی میں اضافے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

Deutschland Narendra Modi und Angela Merkel auf der Hannover Messe
یورپ کی سب سے مضبوط معیشی طاقت’جرمنی‘ کی چانسلر سے مودی کی ملاقاتتصویر: AFP/Getty Images/T. Schwarz

عالمی کامیابیاں

اقتصادی محاذ پر مودی کی کارکردگی پر تفصیلی نگاہ ڈالنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ نریندر مودی کی بین الاقوامی سرگرمیوں کا بھی جائزہ لیا جائے۔ مودی نے عالمی سطح پر اپنے سفارتی تعلقات اور غیر ملکوں کے ساتھ روابط بڑھانے کے عمل کے دوران اپنی تمام تر توجہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی بحالی اور تجارتی تعلقات کے فروغ پر مرکوز کر رکھی ہے۔ ایک سال کے اندر اندر مودی نے متعدد غیر ملکی دورے کر کے دنیا کے ان سیاسی رہنماؤں کے کلب میں شمولیت اختیار کر لی ہے جنہوں نے دنیا کے مختلف ممالک کا سب سے زیادہ سفر کیا ہے۔ اُن کے غیر ملکی دوروں کی منزلوں کی فہرست طویل ہے تاہم محض چند کا ذکر ہی کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے اہم ترین ممالک کے دارالحکومتوں کا دورہ کر چُکے ہیں۔ مثال کے طور پر واشنگٹن، بیجنگ، سیؤل، برلن، کھٹمنڈو، اوٹاوا، اولان بتور اور کینبرا۔ یہ تمام شہر کسی بھی بھارتی رہنما کے لیے نہ صرف سیاسی اور سفارتی اعتبار سے بلکہ تجارتی اور اقتصادی لحاظ سے بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ نریندر مودی گزشتہ 12 ماہ کے دوران کم از کم 19 ممالک کے دورے کر چُکے ہیں۔ ایشیا پیسیفک کی ایک عالمی تجزیاتی فرم آئی ایچ ایس کے چیف اکانومسٹ راجیو بسواس اس بارے میں کہتے ہیں کہ مودی نے بھارت کو دوبارہ ایک متحرک معاشی طاقت کے طور پر متعارف کروانے کے عمل میں نہایت عمدہ کار کردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بسواس کے بقول، ’’نریندر مودی نے امریکا، چین، جاپان اور جرمنی جیسی دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں کا نہ صرف دورہ کیا بلکہ ان کے حکومتی اور تجارتی لیڈران سے ملاقاتیں کیں، نیز پرائیویٹ سیکٹر اور تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں نہایت اہم معاہدے بھی طے کیے۔ مودی نے مذکورہ ممالک کا دورہ بڑے بڑے بھارتی بزنس وفود کے ہمراہ کیا۔‘‘