1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی حکومت کے چھ ماہ اور پارلیمان کا اہم اجلاس

جاوید اختر، نئی دہلی24 نومبر 2014

بھارتی پارلیمان کا آج 24 نومبر سے سرمائی اجلاس شروع ہوا ہے۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت شروع ہوا ہے، جب مودی حکومت کے چھ ماہ مکمل ہورہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DsDm
تصویر: Reuters/R. Stevens

یہ اجلاس ایک ماہ تک چلے گا اور مختلف معاملات پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ کے سبب یہ اجلاس خاصا ہنگامہ خیز ثابت ہونے کا امکان ہے۔

بیرونی ملکوں سے بلیک منی واپس لانے میں ناکامی، ملک کے کئی علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات اور مرکزی تفتیشی بیورو یعنی سی بی آئی کے مبینہ غلط استعمال جیسے معاملات پر اپوزیشن کے سخت رویے کے پیش نظر پارلیمان کے سرمائی اجلاس کے کافی ہنگامہ خیز ہونے کے آثار واضح طورپر دکھائی دے رہے ہیں۔23 دسمبر تک چلنے والے اس اجلاس کے دوران بائیس نشستیں ہوں گی۔

30 برسوں میں پہلی مرتبہ اپنے بل بوتے پر حکومت میں آنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت اس اجلاس میں معیشت اور روزگار سمیت مختلف امور پر زیادہ سے زیادہ بل پاس کرانے کی کوشش کرے گی۔ اس وقت دونوں ایوانوں میں 67 بل زیر التواء ہیں جب کہ حکومت کچھ نئے بل بھی لانا چاہتی ہے۔ حالانکہ حکومت نے اجلاس شروع ہونے سے قبل کُل جماعتی میٹنگ طلب کر کے تمام سیاسی جماعتوں سے پارلیمنٹ کو پرسکون انداز میں چلانے میں مدد کی اپیل کی تھی تاہم کئی اپوزیشن جماعتوں نے اس میٹنگ کا بائیکاٹ کر کے اپنا منصوبہ واضح کردیا ہے۔ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس بھی ایوان زیریں میں اپوزیشن لیڈر کا درجہ نہ دیے جانے پر ناراض ہے۔



خیال رہے کہ پچھلے عام انتخابات میں بی جے پی نے545میں سے 282سیٹیں جیت کر ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں واضح اکثریت تو حاصل کرلی تھی لیکن 250 رکنی ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں اس کے صرف 43 ممبر ہیں اور کوئی بھی بل پاس کرانے کے لیے اسے 68 اراکین والی کانگریس کی تائید حاصل کرنا ضروری ہے۔

مختلف معاملات پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ کے سبب یہ اجلاس خاصا ہنگامہ خیز ثابت ہونے کا امکان ہے
مختلف معاملات پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ کے سبب یہ اجلاس خاصا ہنگامہ خیز ثابت ہونے کا امکان ہےتصویر: UNI

سیاسی تجزیہ نگار این کے سنگھ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ حکومت کا سب سے بڑا امتحان راجیہ سبھا میں ہی ہوگا کیوں کہ جو بل پاس کرانے ہیں ان میں سے بیشتر راجیہ سبھا میں ہیں، جب کہ راجیہ سبھا میں حکومت کی حالت بہت خراب ہے جہاں حکومت کو مخالف ماحول کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن افہام و تفہیم کا مظاہرہ کریں گی اور کچھ بل منظور ہوسکتے ہیں۔ جب کہ مخالفت کے ماحول کی جگہ ساتھ ملا کر، پچکار کر اور سمجھا کر کام کرنے کی ضرورت ہے اور شاید حکومت ایسا ہی کرنے جارہی ہے۔‘‘
حکومت کے لیے اہم بل پاس کرانا اس لیے بھی ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا کیوں کہ بائیں بازو کی جماعتوں نے معاشی اصلاحات اور محنت و مزدوری کے قوانین میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی مخالفت کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے بلیک منی کے معاملے پر اپوزیشن کے حملوں کا جواب دینا بھی آسان نہیں ہوگا۔

خیال رہے کہ مودی نے عام انتخابات میں عوام سے وعدہ کیا تھا کہ بیرون ملک بینکوں میں جمع بلیک منی وہ سو دن کے اندر بھارت لے آئیں گے۔ این کے سنگھ کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’مودی کی پوری سیاست جارحانہ سیاست ہے اور بلیک منی کے بارے میں بھی وہ کافی جارحانہ رخ اپنا سکتے ہیں اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اس معاملے کو جی 20 میں اٹھایا اور اسے منظور بھی کرایا۔‘‘ این کے سنگھ کا مزید کہنا ہے کہ حکومت اور بی جے پی یقیناﹰ جارحانہ رخ اپنانے کی کوشش کرے گی لیکن ان سے یہ سوال تو کیا ہی جائے گا کہ آپ نے جی 20میں تو پرچم لہرا دیا تاہم بلیک منی کا 90 فیصد جو ملک کے اندر ہے اس کے لیے آپ نے کیا پالیسی بنائی ہے۔‘‘


حکومت کا اس اجلاس میں سو سال سے بھی زیادہ پرانے کئی ایسے قوانین کو منسوخ کرنے کا بھی منصوبہ ہے جو آج بے معنی ہوچکے ہیں۔ مثلاﹰ پوشیدہ خزانہ سے متعلق 1878ء کا قانون جس کے مطابق 10 روپے سے زیادہ مالیت کا دفینہ ملنے پر ٹیکس کلکٹر کو مطلع کرنا پڑتا ہے یا 1898ء کا پوسٹ آفس قانون جس کے تحت خطوط کو ایک جگہ سے دوسر ی جگہ لے جانے کا حق صرف محکمہ ڈاک کو ہے۔