1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موبائل اور ٹیبلٹ کی نیلی روشنی، نیند کی دشمن

امتیاز احمد25 نومبر 2014

جو بھی شخص شام کو اسمارٹ فون، ٹیبلٹ یا پھر لیپ ٹاپ استعمال کرتا ہے، اس کو گہری نیند بھی نہیں آئے گی۔ اس کی وجہ ان ڈیوائسز سے نکلنے والی وہ نیلی روشنی ہے، جو ہمارے اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DsVu
Smartphones und Tablets
تصویر: Getty Images

آج کل زیادہ تر نوجوان شام ہوتے ہی کوئی کتاب پڑھنے کی بجائے موبائل، ٹیبلٹ یا پھر لیپ ٹاپ کا استعمال شروع کر دیتے ہیں اور ان ميں سے بہت سے نوجوان رات دیر تک انہی کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ آپ محسوس کریں یا نہ کریں لیکن سوئٹرزلینڈ کی بازل یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق ٹائپنگ کرتے ہوئے، ایس ایم ایس پڑھتے ہوئے یا پھر لیپ ٹاپ کا استعمال کرتے ہوئے انسان چوکس ہو جاتا ہے اور چاہے بیڈ میں ہی کیوں نہ لیٹا ہو، اس کی نیند غائب ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

نیورولوجی ماہرین کے مطابق اس کی ایک وجہ وہ نیلی روشنی ہے، جو لہروں کی صورت می ان ڈیواسز کی اسکیرینوں سے نکلتی ہے۔ اصل میں یہ روشنی نیلے رنگ کی ہوتی ہے لیکن انسان اسے سفید رنگ کی محسوس کرتا ہے۔

بازل یونیورسٹی میں قائم ’سینٹر فار کرونو بیالوجی‘ کے سربراہ کرسٹیان کاجوخن کا کہنا تھا کہ انسان کا اعصابی نظام انتہائی حساس ہے اور نیلی روشنی پر بہت تیزی سے رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں نیلی روشنی فوری طور پر انسان کے اس اندرونی گھڑی کو متاثر کرتی ہے، جو ہماری نیند کے ساتھ منسلک ہوتی ہے، ’’یہ نیلے رنگ کا شاور بہت تیزی کے ساتھ ہماری نیند اڑا دیتا ہے۔ یہ بالکل کیفین کی طرح ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ ہماری آنکھ کے ریٹينا میں پائے جانے والے خاص فوٹو ریسپٹرز نیلی رنگ کی لہروں، خاص طور پر 480 نینو میٹر لمبائی والی لہروں کے حوالے سے بہت ہی حساس ہیں اور فوری رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ یہ فوٹو ریسپٹرز خاص قسم کے پروٹین پیدا کرتے ہیں اور یہ پروٹین دماغ کی اس اندرونی گھڑی تک سگنل پہنچاتے ہیں، جو نیند کے آنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

کرسٹیان کاجوخن بتاتے ہیں کہ نیلے رنگ کی روشنی انسانی دماغ پر اس قدر اثر انداز ہوتی ہے کہ بعض اندھے یا نابینا افراد بھی 80 فیصد درسدتگی کے ساتھ بتا سکتے ہیں کہ نیلی روشنی بند کی گئی ہے یا چلائی گئی ہے۔ نابینا افراد کے لیے دیگر لمبائی کی لہروں کے بارے میں بتانا نا ممکن ہے۔

یہ تجربہ کرنے کے لیے 13 سے 17 برس کی عمر کے نوجوانوں کو ایک ایسے لیبارٹری نما کمرے میں رکھا گیا، جہاں ہلکے نیلے رنگ کی ایک ای ڈی اسکرین لگائی گئی تھی۔ اسی کمرے میں ایسے نوجوانوں کو بھی رکھا گیا تھا، جنہوں نے ایسی خصوصی عینکیں پہن رکھی تھیں، جو نیلی لائٹ کو فلٹر کرتی تھیں۔ جن نوجوانوں نے عینکیں لگا رکھی تھیں اور نیلی روشنی ان کی آنکھوں تک نہیں پہنچ سکتی تھی، ان کی نیند بھی گہری تھی اور وہ خود کو تھکا ہوا بھی محسوس کرتے تھے۔