ممبئی: گائے کا گوشت برآمد بھی ہوا تو پانچ برس قید
4 مارچ 2015بھارت کی اکثریتی ہندو آبادی گائے کو انتہائی مقدس خیال کرتی ہے اور ملک کی متعدد ریاستوں میں ان کے ذبیحہ پر پہلے ہی پابندی عائد ہے لیکن مہاراشٹر ریاست کے تازہ اقدامات اس سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ اب بھارت کے تجارتی مرکز ممبئی میں نہ صرف گائے کا گوشت بیچنے والے کو سزا دی جا سکے گی بلکہ اگر کسی کے گھر یا کسی کی ملکیت میں سے بھی گائے کا گوشت نکلا تو اسے پانچ برس تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے یا پھر اسے ایک ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
انڈین ایکسپریس اخبار کے مطابق ملکی صدر پرنب مکھرجی کی طرف سے ایک قانونی ترمیم کی منظوری کے بعد یہ باقاعدہ طور پر ایک قانون بن گیا ہے۔ گائے کے گوشت سے متعلق ریاستی پارلیمان نے اس بِل کی منظوری سن انیس سو پچانوے میں دی تھی لیکن اسے ابھی تک حتمی منظوری کے لیے صدر کے پاس نہیں بھیجا گیا تھا۔
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فدناوس کا ٹوئٹر پر ملکی صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ گائیوں کے ذبیحہ پر پابندی کا ہمارا خواب اب ایک حقیقت بن گیا ہے۔‘‘ اسی طرح زیادہ تر ہندو قوم پرستوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
تاہم بھارت میں اس قانون کی منظوری پر سوشل میڈیا پر شدید بحث جاری ہے۔ ٹوئٹر یوزر رمیش سریوات نے لکھا ہے، ’’ مہاراشٹر کی تمام مرغیاں، بکریاں اور بھیڑیں یہ سوچ رہی ہیں کہ تمام مزے گائیوں ہی کے کیوں ہیں ؟۔‘‘
اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر شخصی آزادی، مذہبی اعتقاد، تاریخ، ماحول اور جانوروں کے حقوق کے حوالے سے گرما گرم بیانات پڑھنے کو بھی مل رہے ہیں۔ سونیکا مہتا نے لکھا ہے، ’’ بھارت میں لڑکی کی بجائے گائے کے طور پر پیدا ہونا زیادہ محفوط ہے۔‘‘
ممبئی فلم انڈسٹری کے زیادہ تر افراد اس فیصلے سے ناخوش نظر آئے۔ اداکارہ سومونا چکرورتی کا کہنا تھا، ’’ اس ملک کو جنسی زیادتی، کرپشن اور غربت ایسے دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ حکومت کو ان مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ کون کیا کھاتا ہے ؟ یہ ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے۔‘‘
بھارت میں گائے کے گوشت کا کاروبار زیادہ تر مسلمان کرتے ہیں۔ یہ بھارت کی مجموعی آبادی کا تیرہ فیصد بنتے ہیں۔ بھارت کے انتہا پسند ہندو اپنی مذہبی کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے پورے ملک میں تمام جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔