1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملیریا کے خلاف، مچھر ہی ہتھیار

افسر اعوان18 جون 2014

سائنسدانوں کے مطابق انہوں نے ملیریا کے خلاف ایک نیا ہتھیار تیار کر لیا ہے اور یہ ہتھیار جینیاتی طور پر تبدیل شدہ مچھر ہیں جو اپنی نسل میں زیادہ تر نر مچھر ہی پیدا کریں گے اور نتیجتاﹰ بتدریج ان کی نسل ہی ختم ہو جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1CKtF
تصویر: picture-alliance/dpa

اس نئی تحقیق کی رپورٹ تحقیقی جریدے ’نیچر کمیونیکیشن‘ میں شائع کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں ان ماہرین کا کہنا ہے کہ سیکس یا صنف منتخب کرنے کی اس نئی ٹینکینک کے ذریعے مچھروں کی جو اگلی نسل پیدا ہو گی ان میں سے 95 فیصد تک نر مچھر ہوں گے۔ عام طور پر نر مچھروں کی شرح 50 فیصد ہوتی ہے۔

اس طریقہ کار کو اختیار کرنے سے مچھروں کی آبادی میں مادہ مچھروں کی تعداد بہت ہی کم ہو جائے گی اور جس کا نتیجہ ان مچھروں کی آبادی میں بتدریج کمی اور آخر کار خاتمے کی صورت میں نکلے گا۔ ملیریا کا جرثومہ ایک انسان سے دوسرے انسان تک منتقل کرنے والے ان مچھروں کے خاتمے کی وجہ سے اس بیماری کا پھیلاؤ بھی رُک جائے گا۔

نیا طریقہ کار ’اینوفیلس گیمبائی‘ نامی مچھروں پر چھ سالہ تحقیق کے بعد دریافت کیا گیا ہے
نیا طریقہ کار ’اینوفیلس گیمبائی‘ نامی مچھروں پر چھ سالہ تحقیق کے بعد دریافت کیا گیا ہےتصویر: picture alliance/dpa

لندن کے امپیریل کالج کی پروفیسر اور اس تحقیق کی سربراہی کرنے والی محققہ آندریا کریسانتی Andrea Crisanti کے بقول، ’’ملیریا میں دواؤں کے خلاف مدافعت پیدا ہو رہی ہے اور ہمیں اس کے خاتمے کے لیے نئے طریقے ڈھونڈنا ہوں گے۔‘‘

’’ہم سمجھتے ہیں کہ اس بیماری سے لڑنے کا ہمارا طریقہ، آگے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ہم نے لیبارٹری میں اپنی خواہش کے مطابق نر مچھر پیدا کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے اور یہی چیز ملیریا کے خاتمے کا نیا طریقہ ثابت ہو گی۔‘‘

اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق مچھروں کے ذریعے منتقل ہونے والی بیماری ملیریا دنیا بھر میں ہر سال قریب چھ لاکھ انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ شکار افریقہ کے سب صحارا علاقے سے تعلق رکھنے والے بچے بنتے ہیں۔

برطانوی ماہرین طبیعات کی جانب سے جن مچھروں پر چھ سال کی تحقیق کے بعد نیا طریقہ کار دریافت کیا گیا ہے وہ ’اینوفیلس گیمبائی‘ Anopheles gambiae ہے۔ مچھروں کی یہی قسم ملیریا پیراسائٹ پھیلانے میں خوفناک ترین ہے۔

ملیریا کا سب سے زیادہ شکار افریقہ کے سب صحارا علاقے سے تعلق رکھنے والے بچے بنتے ہیں
ملیریا کا سب سے زیادہ شکار افریقہ کے سب صحارا علاقے سے تعلق رکھنے والے بچے بنتے ہیںتصویر: Cécilia Conan

سائنسدانوں نے اس مقصد کے لیے انزائم ڈی این اے enzyme DNA کا ایک حصہ نر مچھروں کے ایمبریوز میں داخل کر دیا۔ اس طرح جب ان مچھروں کی بلوغت کی عمر پہنچی تو ان کے سپرمز میں سے ایکس کروموسوم تقریباﹰ مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ ایکس کروموسوم دراصل پیدا ہونے والے بچے کی مادہ جنس کا تعین کرتا ہے۔ اس طرح جینیاتی طور پر تبدیل شدہ مچھر کے سپرمز میں زیادہ تر Y کروموسومز ہی موجود تھے جو نر مچھروں کی پیدائش کی وجہ بنتے ہیں۔

اس طرح سے پیدا کردہ مچھروں کو چار تجرباتی باکسز میں رکھا گیا۔ ہر باکس میں 50 جینیاتی طور پر تبدیل شدہ نر مچھروں کو جبکہ 50 عام یا جنگلی مادہ مچھروں کو رکھا گیا۔ پانچ میں سے چار باکسز میں چھ نسلوں کے اندر اندر مچھروں کی پوری آبادی ختم ہو گئی کیونکہ ہر اگلی نسل میں مادہ مچھروں کی تعداد تیزی سے کم ہوتی چلی گئی۔

اس تحقیق کی ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ نر مچھر اگلی نسل میں اپنی طرح کے ہی نر مچھر پیدا کرتے ہیں جن میں X کروموسوم تقریباﹰ غائب ہوتا ہے۔ اس طرح یہ عمل جاری رہتا ہے یہاں تک کہ کسی ایک آبادی میں کوئی ایک بھی مادہ مچھر نہیں بچتا۔