1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ملائیشیا میں 139 قبروں کی دریافت‘، انسانی المیے کی داستان

عاطف بلوچ25 مئی 2015

ملائیشیا کے شمالی جنگلاتی علاقوں میں انسانوں کے اسمگلروں کے سابقہ اٹھائیس کیمپوں میں 139 قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ تاہم ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ان قبروں میں کتنے افراد دفن کیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FW2v
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail

خبر رساں ادارے روئٹرز نے کوالمپور سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے پیر 25 مئی کو بتایا ہے کہ تھائی لینڈ سے ملحق اس ملائشیائی صوبے پرلس میں انسانوں کے اسمگلروں نے کیمپ بنا رکھے تھے تاکہ تارکین وطن افراد کو غیر قانونی طور پر وہاں رکھا جا سکے۔ پولیس سربراہ خالد ابوبکر نے پیر کے دن اس حوالے سے معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ ان کیمپوں میں قبریں دریافت ہونے کے علاوہ ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ اسمگلر تارکین وطن افراد کو تشدد کا نشانہ بھی بناتے تھے۔

خدشہ ظاہر کیا گیا ہے دریافت ہونے والی کئی قبروں میں ایک سے زیادہ افراد کو دفن کیا گیا ہے۔ تاہم خالد ابوبکر کے مطابق ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ان قبروں میں کتنے افراد دفنائے گئے ہیں۔ اُن کے بقول یہ وہی جنگلاتی علاقہ ہے، جہاں انسانی اسمگلروں نے سینکڑوں تارکین وطن افراد کو رکھا تھا۔ علاقائی سطح پر انسانوں کی اسمگلنگ کا بحران منظر عام پر آنے کے بعد ملائیشیا میں پہلی مرتبہ ایسی قبروں کی دریافت منظر عام پر آئی ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ تھائی لینڈ کے جنوبی جبکہ ملائیشیا کے شمالی سرحدی علاقوں میں گھنے جنگلات ہیں۔ ان علاقوں میں انسانوں کے اسمگلروں نے اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے تھے۔ یہ اسمگلر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے غیر قانونی تارکین وطن افراد کو بذریعہ میانمار وہاں لاتے تھے، جہاں سے انہیں آگے منتقل کیا جاتا تھا۔ ان تارکین وطن افراد کا تعلق بنگلہ دیش یا میانمار سے ہوتا ہے، جن میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

شمالی ریاست پرلس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے خالد ابو بکر نے تھائی سرحد سے صرف پانچ سو میٹر دور واقع ان اٹھائیس سابقہ کیمپوں کی صورتحال انتہائی ابتر بتاتے ہوئے کہا، ’’یہ ایک انتہائی غمگین معاملہ ہے۔ اس معاملے کی چھان بین کے لیے ہم تھائی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کا کھوج لگانے میں کامیاب ہو جائیں گے، جو اس بربریت کے ذمہ دار ہیں۔‘‘

ملائیشیا کے پولیس سربراہ خالد ابوبکر نے مزید بتایا کہ کچھ قبروں کے نزدیک سے لوہے کی زنجیروں کے علاوہ ایسے ثبوت میں ملے ہیں، جن کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ یہاں رکھے گئے افراد کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا۔ تاہم اس حوالے سے انہوں نے زیادہ تفصیلات نہیں بتائی ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ رواں ماہ کے آغاز پر ملائیشیا سے متصل تھائی لینڈ کے جنوبی علاقوں میں بھی تارکین وطن افراد کی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی تھیں، جس کے بعد تھائی حکام انسانی اسمگلروں کے خلاف اپنے کریک ڈاؤن میں تیزی لے آئے تھے۔

Malaysia Massengrab von Rohingya Flüchtlingen entdeckt Polizei Khalid Abu Bakar
پولیس سربراہ خالد ابوبکر کے بقول قبریں دریافت ہونے کے علاوہ ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ اسمگلر تارکین وطن افراد کو تشدد کا نشانہ بھی بناتے تھےتصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail

روہنگیا مسلمان سالانہ بنیادوں پر ہزاروں کی تعداد میں کشتیوں کے ذریعے جنوبی تھائی لینڈ میں اسمگل کیے جاتے ہیں۔ حالیہ عرصے کے دوران ان غیر قانونی تارکین وطن کو ملائیشیا کے سرحدی علاقوں میں واقع کیمپوں میں رکھنا ایک معمول بن گیا ہے۔ یہ اسمگلر ان افراد کو اُس وقت تک اپنی قید میں رکھتے ہیں، جب تک انہیں وعدے کے مطابق طے شدہ رقوم ادا نہیں کر دی جاتیں۔

تھائی حکام پر عالمی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف اپنے کریک ڈاؤن میں مزید تیزی لائیں۔ اس تناظر میں پیر کے دن ہی تھائی حکام نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے جاری ہنگامی آپریشن کے بعد اسمگلروں کے تمام کیمپوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔

تاہم سمندر میں یہ بحران ختم نہیں ہو سکا ہے، جہاں اب بھی انسانوں سے لدی متعدد کشتیاں مدد کی منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے ’یو این ایچ سی آر‘ نے بتایا ہے کہ کشتیوں میں سوار کم ازکم ساڑھے تین ہزار مہاجرین اب بھی پانیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے علاقائی رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ ان افراد کو بچانے کے لیے فوری طور پر کارروائی کی جائے۔