1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معزول مصری صدر مرسی کو بیس سال قید کی سزا

امتیاز احمد21 اپریل 2015

مصر کی ایک عدالت نے ملک کے پہلے جمہوری طور پر منتخب اور اب معزول صدر محمد مرسی کو بیس برس قید کی سزا سنا دی ہے۔ طویل عرصے سے زیر حراست اخوان المسلمون کے اس رہنما کے خلاف یہ پہلا عدالتی فیصلہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1FBeL
Ägypten Mursi Urteil
تصویر: AFP/Getty Images

محمد مرسی کے خلاف یہ فیصلہ سن دو ہزار بارہ میں مظاہرین کی ہلاکت کے الزام میں سنایا گیا ہے۔ آج محمد مرسی کے علاوہ مصر کی کالعدم سیاسی اور مذہبی تحریک اخوان المسلمون کے کئی دیگر رہنماؤں کو بھی قاہرہ کی ایک فوجداری عدالت میں پیش کیا گیا۔ نیشنل پولیس اکیڈمی میں لگائی گئی اس عدالت میں خصوصی طور پر بلٹ پروف اور ساؤنڈ پروف شیشے سے کٹہرے کی طرز پر ایک عارضی کمرہ بنایا گیا تھا، جہاں ان ملزمان کو کھڑا کیا گیا۔

سن دو ہزار بارہ میں مصر میں قاہرہ کے صدارتی محل کے باہر محمد مرسی کے حامیوں اور مخالفین کے مابین جھڑپیں ہوئی تھیں، جن کے نتیجے میں کم از کم دس افراد مارے گئے تھے۔ جج احمد یوسف نے اس مقدمے میں محمد مرسی کے خلاف لگائے گئے قتل کے الزامات ختم کر دیے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’طاقت کا مظاہرہ‘ کرنے اور غیرقانونی گرفتاریوں کے حوالے سے محمد مرسی کو اس مقدمے میں سزا سنائی گئی ہے۔

اس مقدمے میں محمد مرسی کے علاوہ اخوان المسلمون کے بارہ دیگر رہنماؤں اور اسلام پسندوں کو بھی بیس بیس برس کی سزائے قید سنائی گئی ہے۔ اس موقع پر محمد مرسی اور ان کے حامیوں نے چار انگلیوں سے رابعہ العدوبہ مسجد کے نشان بنا رکھے تھے۔ یہ وہی مسجد ہے، جس کے باہر محمد مرسی کے حامی احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے تھے اور حکومتی سکیورٹی فورسز نے ان پر ٹینک چڑھا دیے تھے۔ چودہ اگست دو ہزار تیرہ کو پیش آنے والے اس واقعے میں اخوان المسلمون کے سینکڑوں حامی مارے گئے تھے۔

مصری فوج نے سن دو ہزار تیرہ میں اپنے ملک کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر کا تختہ الٹ دیا تھا، جس کے بعد سے محمد مرسی اور ان کے ہزاروں حامیوں کو مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔ مرسی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اُس وقت کے آرمی چیف اور موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی نے مرسی کے حامیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ ہزاروں کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔

محمد مرسی بحیرہ روم کے ساحل کے قریب شہر اسکندریہ کی اس جیل میں قید ہیں، جس کی سکیورٹی انتہائی سخت ہے۔ اس جیل میں منتقل کیے جانے سے پہلے چار ماہ تک کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ محمد مرسی کو کس جگہ رکھا گیا تھا۔ ماضی کی مختلف عدالتی کارروائیوں کے دوران محمد مرسی اور ان کے حامی احتجاجاﹰ عدالت اور جج محمد یوسف کی طرف پشت کر کے کھڑے ہو جاتے تھے۔

موجودہ حکومت کی جانب سے اُن سیکولر اور آزاد خیال ارکان کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جنہوں نے مرسی کے پیشرو حسنی مبارک کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی قیادت کی تھی۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق السیسی اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ پچاسی سال پرانی تاریخ (اخوان المسلمون) کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔