1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’معافی چاہتا ہوں‘، سابق نازی اہلکار کا اعتراف

امتیاز احمد21 اپریل 2015

سابق نازی اہلکار اور اذیتی کیمپ ’آؤشوِٹس کے منشی‘ نے کہا ہے کہ وہ ہولوکاسٹ کے دوران اپنے کردار پر اخلاقی طور پر معافی چاہتا ہے۔ ترانوے سالہ اوسکار گرونِنگ کے خلاف آج سے عدالتی کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FBps
Deutschland Oskar Gröning Prozess in Lüneburg
تصویر: AFP/Getty Images/R. Hartmann

جج کے سامنے دوسری عالمی جنگ کے دور میں گیس چیمبرز میں یہودیوں اور دیگر قیدیوں کے ہلاکت کا اعتراف کرتے ہوئے اس سابق اہلکار نے آج کہا، ’’اس میں تو کسی شک کی گنجائش ہی نہیں کہ میں خود کو ایک اخلاقی جرم کا حصہ دار سمجھتا ہوں۔‘‘ کمرہ عدالت میں ہولوکاسٹ کے دوران بچ جانے والے افراد اور یہودی قتل عام کا نشانہ بننے والوں کے رشتہ دار بھی موجود تھے، جن سے مخاطب ہوتے ہوئے اوسکار گرونِنگ نے کہا، ’’میں معافی کی درخواست کرتا ہوں۔‘‘

اوسکار گرونِنگ جرمن شہر لیونیبُرگ کی ایک ضلعی عدالت میں سماعت کے دوران ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک بولتے رہے اور اس دوران انہوں نے اپنے بیان میں وقفہ دینے کی تجویز بھی نہ مانی۔گرونِنگ کی گفتگو کا بیک وقت انگریزی، عبرانی اور ہنگیرین زبانوں میں ترجمہ کیا جا رہا تھا۔

ترانوے سالہ گرونِنگ کا تعلق ہٹلر کے ایس ایس دستوں سے تھا اور وہ آؤشوِٹس کے اذیتی کیمپ میں کام کرتا تھے۔ اُس وقت گرونِنگ کا کام وہاں پہنچنے والے قیدیوں کے سامان کی تلاشی لینا اور اس میں سے رقم کے ساتھ ساتھ قیمتی سامان علیحدہ کرنا تھا۔ ہٹلر کی فوج کے اس سابق اہلکار کا سن دوہزار پانچ میں مختلف جرمن اخبارات کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’جنوری 1943ء کی ایک رات میں نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ آؤشوِٹس میں کس طرح یہودیوں کو زہریلی گیس کے ذریعے ہلاک کیا گیا۔ میں نے گیس چیمبر میں لوگوں کو خوف کی حالت میں چیختے ہوئے سنا۔‘‘

Deutschland Oskar Gröning Prozess in Lüneburg
تصویر: Reuters/J. Stratenschulte

گرونِنگ ستمبر 1942ء سے لے کر اکتوبر 1944ء تک اس اذیتی کیمپ میں تعینات رہا تھے۔ بنیادی طور پر اس سابق نازی اہلکار کا کام اس اذیتی کیمپ میں پہنچنے والے جلاوطن قیدیوں سے حاصل کردہ رقوم، قیمتی سامان اور زیورات کو سنبھالنا تھا۔ اسی وجہ سے گرونِنگ کو ’’آؤشوِٹس کا منشی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اوسکار گرونِنگ کا سن دو ہزار پانچ ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں کہنا تھا، ’’میں نے کسی کا بھی قتل نہیں کیا۔‘‘ اب اس انٹرویو کے دس برس بعد گرونِنگ کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے۔ گرونِنگ کے خلاف آج سے شروع ہونے والی مقدمے کی کارروائی شاید جرمنی میں سابق نازیوں کے خلاف آخری بڑا مقدمہ ہو۔

اوسکار گرونِنگ جرمن شہر لیونیبُرگ کے ایک نواحی گاؤں میں رہائش پذیر ہیں، اسی وجہ سے اس کے خلاف اس مقدمے کی سماعت لیونیبُرگ کی ایک ضلعی عدالت میں کی جا رہی ہے۔ ملزم کے خلاف ثبوت ’’ہنگیرین ایکشن‘‘ کے حوالے سے پیش کیے جائیں گے۔ ’’ہنگیرین ایکشن‘‘ سولہ مئی سے گیارہ جولائی 1944ءکے دوران پیش آنے والے واقعات کو کہا جاتا ہے۔ اس عرصے کے دوران ہٹلر کے ایس ایس دستوں نے ہنگری سے تقریباﹰ چار لاکھ پچیس ہزار یہودیوں کو جرمن فوج کے زیر قبضہ پولینڈ میں واقع آؤشوِٹس کے اذیتی کیمپ میں پہنچایا تھا جبکہ ان میں سے کم از کم تین لاکھ انسانوں کو وہاں کے بدنام زمانہ گیس چیمبرز میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اوسکار گرونِنگ بھی اُس وقت وہیں کام کرتا تھا۔