1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مسلمانوں کے لیے فرقہ وارانہ لڑائی سب سے بڑا خطرہ ہے، کویت

امتیاز احمد27 مئی 2015

اسلامی تعاون کی تنظیم کے اجلاس کے موقع پر کویت کے امیر نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا میں موجود مسلمانوں کے لیے سب سے اہم اور بڑا خطرہ فرقہ وارانہ لڑائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے فوری طور پر نمٹا جانا ضروری ہے۔

https://p.dw.com/p/1FXM3
Symbolbild Muslimische Rebellen
تصویر: Fotolia/mujahid

اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر کویت کے امیر صباح الاحمد الصباح نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف تمام مسلم ممالک کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ اس اجلاس میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے بھی ایسے ہی ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا۔ مسلمان ملکوں کی ستاون رکنی اس تنظیم کے وزرائے خارجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کویتی امیر نے کہا، ’’ہمیں فرقہ وارانہ بیماری کے خلاف سخت مؤقف اپنانا ہوگا۔ فرقہ واریت ہماری قوم کی ساخت کو ہلانے اور اس کی تقسیم کا باعث بن رہی ہے۔‘‘

صباح الاحمد الصباح کا مزید کہنا تھا، ’’ہماری قوم کے وجود کے لیے مذہبی جنونیت سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس تنازعے میں ہم سب ہی شکست خوردہ ہیں، اس میں جیت صرف اس کی ہے، جو اپنے مقاصد کے لیے تباہ کن فرقہ وارانہ لڑائی کو بڑھانا چاہتا ہے۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق مشرق وسطیٰ میں سُنی ملک سعودی عرب اور شیعہ ملک ایران میں جاری شدید تناؤ تو سراسر سیاسی ہے لیکن اس کے نتائج فرقہ وارانہ کشیدگی کی صورت میں برآمد ہو رہے ہیں۔ ریاض اور تہران دونوں مذہب اسلام ہی کی دو شاخوں کے پیروکار ہیں لیکن علاقائی تنازعات میں دونوں اپنے اپنے فرقوں کے لوگوں کی حمایت کرتے ہیں۔

لندن میں بین الاقوامی امور کے تھنک ٹینک چیٹہم ہاؤس کے مشرق وسطی اور شمالی افریقی پروگرام کی نائب سربراہ جین کیننائن مونٹ کہتی ہیں، ’’یہاں کوئی ابدی تنازعہ نہیں ہے لیکن بعض اوقات سیاسی اور اقتصادی تنازعات میں مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘

مسلمان دنیا کے تیل پیدا کرنے والے دو طاقت ور ملکوں کے مابین کشمکش صرف چند عشرے پرانی ہے اور اس میں بھی اضافہ عراق پر امریکی حملے کے بعد ہوا ہے۔ امریکی حملے کے بعد علاقائی توازن میں گڑ بڑ پیدا ہوئی اور عراق تہران کے زیر اثر جاتا ہوا دکھائی دیا۔ مبصرین کے مطابق ایسے میں علاقائی تنازعے کو ظاہری فرقہ وارانہ تنازعے کے طور پر با آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔

سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ میں ریسرچ فیلو فنت حداد کہتے ہیں کہ سطحی طور پر فرقہ وارانہ نظر آنے والے تنازعات کے پیچھے اثرو رسوخ، اپنے اتحادیوں کی سرحدیں اور سپلائی روٹس کی جنگ ہے۔ اپنے تنگ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’علاقائی جغرافیائی سیاست میں فرقہ واریت کی بات کی جاتی ہے لیکن یہ فرقہ وارانہ شناخت کا معاملہ نہیں ہے۔‘‘

کارنیگی اینڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس مڈل ایسٹ پروگرام کے سینیئر ایسوسی ایٹ فریڈرک ویری کہتے ہیں، ’’شیعہ سنی تقسیم حقیقی ہے اور موجود بھی ہے۔ لیکن سیاسی اداکاروں کی طرف سے اس تقسیم کا فائدہ اٹھانا انتہائی خطرناک ہے اور پھر عراق کی طرح تشدد کو کنٹرول کرنا بھی آسان نہیں رہے گا۔ عراق فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے۔‘‘