1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مرسی کو سزائے موت بھی ہو سکتی ہے

19 اپریل 2015

مصر کے سابق صدر محمد مرسی کی حکومت تقریباً دو سال پہلے ختم کر دی گئی تھی۔ آئندہ منگل کو مظاہرین کی ہلاکت کے ایک مقدمے میں اُنہیں اشتعال انگیزی کے الزامات کے تحت موت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FAfz
Egypt Mohammed Mursi
مصر کے سابق صدر محمد مرسیتصویر: Ahmed Ramadan/AA/ABACAPRESS.COM

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے قاہرہ سے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ معزول صدر محمد مرسی کو دو دیگر مقدمات میں بھی سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جن میں سے ایک میں اُن پر غیر ملکی طاقتوں کے لیے جاسوسی کرنے کا اور دوسرے میں 2011ء میں مبارک کے خلاف بغاوت کے دوران جیل سے فرار ہونے کا الزام ہے۔ اِن دونوں مقدمات کا فیصلہ سولہ مئی کو سنایا جائے گا۔

ماہرین کے خیال میں آئندہ منگل کو سنائے جانے والے فیصلے میں مرسی کے لیے، جو مصر میں پہلے آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں سربراہِ مملکت منتخب ہوئے تھے، موت کی سزا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ جج پہلے ہی اُن کی کالعدم جماعت اخوان المسلمون کے رہنماؤں کے خلاف سخت فیصلے سنا چکے ہیں۔

مرسی کی حکومت کا تختہ اُس وقت کے آرمی چیف اور موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی نے تین جولائی 2013ء کو الٹ دیا تھا۔ اس سے پہلے ملک بھر میں مرسی کے ایک سالہ اقتدار کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔

مرسی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد نئے حکمرانوں نے مرسی کے حامیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں چَودہ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے جبکہ ہزاروں کو جیل بھیج دیا گیا۔

مصر میں نئی حکومت کے آنے کے بعد سے اب تک بہت سے مقدمات کی تیز رفتاری کے ساتھ سماعت کی گئی ہے اور سینکڑوں افراد کو موت کی سزائیں دی جا چکی ہیں۔ اقوام متحدہ نے اتنے بڑے پیمانے پر موت کی سزائیں سنانے کو ایک ایسا واقعہ قرار دیا ہے، جس کی ’حالیہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی‘۔

موجودہ حکومت کی جانب سے اُن سیکولر اور آزاد خیال ارکان کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جنہوں نے مرسی کے پیشرو حسنی مبارک کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی قیادت کی تھی۔ اس کے برعکس گزشتہ سال نومبر میں ایک عدالت نے مبارک کے خلاف 2011ء میں سینکڑوں مظاہرین کی ہلاکت کے ایک مقدمے میں اقدامِ قتل کے الزامات واپس لے لیے۔

Al-Sisi bei Hollande 26.11.2014
مصر کے موجودہ صدر عبدالفتاح السیسیتصویر: Reuters/P. Wojazer

اگرچہ موجودہ صدر السیسی کی حکومت کو اُن مصری باشندوں میں کافی مقبولیت حاصل ہے، جو چار سال سے زیادہ عرصے سے جاری سیاسی بحران سے تھک چکے ہیں تاہم انسانی حقوق کے علمبردار گروپوں کا کہنا ہے کہ السیسی حکومت مبارک کے مقابلے میں کہیں زیادہ جابرانہ ہے۔

آئندہ منگل کو مرسی اور چَودہ دیگر ملزمان کے خلاف جس مقدمے کا فیصلہ سنایا جانے والا ہے، اُس کا تعلق پانچ دسمبر 2012ء کو صدارتی محل کے سامنے تصادم کے واقعات میں تین مظاہرین کی ہلاکت اور متعدد کو جبر و تشدد کا نشانہ بنانے سے ہے۔

اے ایف پی نے اپنے جائزے میں لکھا ہے کہ مرسی سزائے موت سے بچ بھی گئے تو بھی اُنہیں طویل عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر سزائے موت سنا دی گئی تو پھر اُس پر عملدرآمد ہونے کا بھی امکان ہے۔ واضح رہے کہ فیصلہ کوئی بھی ہو، مرسی اُس کے خلاف اپیل بہر حال کر سکیں گے۔

اے ایف پی کے مطابق مرسی کے خلاف کوئی بھی سخت عدالتی فیصلہ اخوان المسلمون کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ السیسی اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ پچاسی سال پرانی اس تاریخ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید