1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

محمدو بوھاری صدارتی الیکشن جیت گئے ہیں: اپوزیشن کا دعویٰ

عابد حسین31 مارچ 2015

براعظم افریقہ کے اہم اقتصادی ملک نائجیریا میں صدارتی الیکشن میں اپوزیشن جماعت آل پروگریسو کانگرس نے اپنے امیدوار محمدو بوھاری کی کامیابی کا اعلان کر دیا ہے۔ نائجیریا میں صدارتی و پارلیمانی الیکشن 28 مارچ کو ہوئے تھے۔

https://p.dw.com/p/1F0DC
محمدو بوہاریتصویر: Ekpei/AFP/Getty Images

نائجیریا کے دارالحکومت ابوجہ میں آل پروگریسو کانگرس نے اعلان کیا ہے کہ صدارتی الیکشن میں اُس کے امیدوار محمدوبوھاری کامیاب ہو گئے ہیں۔ نیوز رپورٹوں کے مطابق وہ اپنے حریف گُڈ لَک جوناتھن پر ڈیڑھ ملین ووٹوں کی برتری لیے ہوئے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ موجودہ حکومت کو جمہوری عمل کے ذریعے شکست سے دوچار کیا گیا ہے۔ اپوزیشن کی جماعت کے ترجمان لئی محمد نے نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نائجیریا کی عوام نے میدان مار لیا ہے۔ محمدو بوہاری کے ترجمان گاربا شیحُو نے بھی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ بوھاری کی برتری مستحکم ہے اور موجودہ صدر اُس سے آگے نہیں جا سکتے۔ شیحُو نے حکومت کو اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے اور ’ٹرِکِس‘ کھیلنے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب صدر جوناتھن کو اپنی شکست تسلیم کر لینی چاہیے۔ نائجیریا میں سن 1960 سے آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا کہ منصبِ صدارت پر فائز صدر نے الیکشن میں شکست کھائی ہو۔ اسی طرح آل پروگریسو کانگرس پارلیمنٹ میں بھی واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

نائجیریا کے کاروباری حلقے سے تعلق رکھنے والے بزنس کنسلٹنٹ انٹونی گولڈ مین کا کہنا ہے کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے الیکشن ہارنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اِن انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی اور پولنگ کا عمل انتہائی منظم تھا۔ گولڈ مین کا مزید کہنا ہے کہ نائجیریا کی عوام روایتی جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہیں اور اگر موقع ملے گا تو وہ بڑے فیصلے کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ کچھ اور تجزیہ کاروں کے مطابق صدر گُڈ لَک جوناتھن کو بوکوحرام کے مسئلے پر بھی عوامی اعتماد سے محرومی کا سامنا ہے۔

Wahl in Nigeria Wählerinnen in Jigawa
اٹھائیس مارچ کے انتخابات میں پولنگ منظم انداز میں دیکھی گئیتصویر: DW/Z.Rabo

ابوجہ میں محمدو بوھاری کے گھر پر جشن کی بظاہر کیفیت موجود نہیں ہے کیونکہ بوھاری ہَلے گُلے کو زیادہ پسند نہیں کرتے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے موقع پر بوھاری کا خاموش ہونا اِس لیے بھی اہم ہے کہ نائجیریا میں اقتدار کی منتقلی کوئی آسان عمل نہیں بلکہ سیاسی تشدد اکثر دیکھا گیا ہے۔ نائجیریا کی کوارا ریاست سے تعلق رکھنے والے سینیٹر بُوکولا ساراکی کا کہنا ہے کہ ملک کو درست سمت پر ڈالنے کے لیے سبھی کو اتفاق کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا تاکہ دی گئی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔ بحران زدہ علاقوں کادرنا اور کانو میں حالات پرامن بتائے گئے ہیں۔

محمدو بوھاری کی عمر 72 سال ہے اور وہ ایک فوجی بغاوت کے ذریعے نائجیریا پر 31 دسمبر سن 1983 سے 27 اگست سن 1985 تک حکومت کر چکے ہیں۔ اُن کو ایک اور بغاوت کے نتیجے میں جنرل ابراہیم بابنگیڈا نے منصب سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے تین مرتبہ صدارتی الیکشن میں حصہ لیا لیکن کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے تھے۔ اٹھائیس مارچ کے الیکشن میں وہ آل پروگریسو کانگریس کے امیدوار تھے۔ اُن کا تعلق کاسٹینا ریاست کے مقام داورا سے ہے۔ وہ امریکی وار کالج اور ملکی فوجی اکیڈمی کے فارغ التحصیل ہیں۔