1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

محض 1.5 وولٹ سے پانی کے مالیکیول توڑنے میں کامیابی

افسر اعوان25 اگست 2014

امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے ایک ایسی انتہائی سستی ڈیوائس تیار کی ہے جو محض ڈیڑھ وولٹ کے بیٹری سیل سے پانی کو ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم کر دیتی ہے۔ ہائیڈروجن گیس کو بطور ایندھن استعمال کیا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1D05T
تصویر: Youtube/Stanford University

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ کیمسٹری کے پروفیسر ہونگ جی ڈائے Hongjie Dai اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے تیار کردہ یہ ڈیوائس عام درجہ حرارت پر پانی کو دو گیسوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ یہ ڈیوائس مکمل طور پر امیشن فری ہے یا اس کی وجہ سے فضا میں کسی قسم کی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج نہیں ہوتی۔

اگلے برس یعنی 2015ء میں امریکی صارفین فیول سیلوں سے چلنی والی گاڑیاں خرید سکیں گے۔ ان کاروں کو ویسے تو مکمل طور پر زیرو ایمیشن گاڑیاں قرار دیا جاتا ہے تاہم زیادہ تر کاریں جس ہائیڈروجن کو بطور ایندھن استعمال کریں گی وہ قدرتی گیس سے حاصل کی جائے گی۔ یاد رہے کہ قدرتی گیس ایک فوصل فیول ہی ہے اور عالمی حدت میں اضافے کا باعث بھی۔

اسٹیفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی تیار کردہ ڈیوائس ایک عام ٹرپل اے بیٹری سیل کی برقی توانائی سے بذریعہ الیکٹرولیسز یا برق پاشی پانی کو ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم کر دیتی ہے۔ بیٹری سے حاصل شدہ کرنٹ پانی میں رکھے گئے دو الیکٹروڈز کی مدد سے پانی کو گیسوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بنائی گئی دیگر ڈیوائسز کے برعکس اسٹینفورڈ میں تیار کی گئی اس ڈیوائس میں انتہائی سستی دھاتوں نِکل اور فولاد یا آئرن کے بنے ہوئے الیکٹروڈز استعمال کیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ عام واٹر سپلِٹر ڈیوائسز میں بطور الیکٹروڈز پلاٹینم اور اریڈیئم جیسی انتہائی مہنگی دھاتوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔

ٹویوٹا کمپنی کی فیول سیل سے چلنے والی کار 2015ء میں امریکی صارفین کے لیے دستیاب ہو گی
ٹویوٹا کمپنی کی فیول سیل سے چلنے والی کار 2015ء میں امریکی صارفین کے لیے دستیاب ہو گیتصویر: AFP/Getty Images

ہوانگ جی ڈائے کے بقول، ’’یہ پہلا موقع ہے کہ کسی نے مہنگی دھاتیں استعمال کیے بغیر پانی کو اس قدر کم وولٹیج پر ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ انتہائی زبردست کامیابی ہے۔ کیونکہ عام طور پر اس قدر کم وولٹیج پر پانی کے مالیکیولز کو توڑنے کے لیے پلاٹینم اور اریڈیئم جیسی دھاتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

اس سائنسدانوں کے مطابق نکل دھات اور نکل آکسائیڈ کو بطور کیٹالسٹ یا عمل انگیز استعمال کرنے سے پانی کو مالیکیولز میں تقسیم کرنے کے لیے درکار بجلی میں بہت حد تک کمی ہوئی ہے۔ اس طریقہ کار سے ہائیڈروجن تیار کرنے والے صنعتی ادارے اربوں روپے کی بچت کر سکتے ہیں جو وہ بجلی کی مد میں خرچ کرتے ہیں۔

ہوانگ جی ڈائے اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے تیار کی گئی اس ڈیوائس کی تفصیلات سے متعلق ریسرچ تحقیقی جریدے ’نیچر کمیونیکیشن‘ کی 22 اگست کی اشاعت میں شائع ہوئی ہے۔

یہ دریافت اس تحقیق کے شریک مصنف اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے گریجوایٹ اسٹوڈنٹ مِنگ گونگ Ming Gong کی جانب سے کی گئی۔ ہوانگ جی ڈائے کے مطابق، ’’مِنگ نے یہ دریافت کیا کہ ایک نِکل دھات اور نِکل آکسائیڈ کا اسٹرکچر خالص نِکل دھات یا خالص نکل آکسائیڈ کے اسٹرکچر کی نسبت زیادہ مؤثر ہے۔ یہ نیا اسٹرکچر ہائیڈروجن الیکٹرولیسز کے لیے انتہائی کارآمد ہے لیکن ابھی تک ہم اس کے پیچھے کارفرما سائنسی عمل کو پوری طرح سمجھ نہیں پائے۔‘‘

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے یہ محققین اب ایک ایسی ڈیوائس کی تیاری کا منصوبہ رکھتے ہیں جو سولر انرجی سے حاصل شدہ بجلی سے پانی کو مالیکیولز میں تقسیم کرے گی۔