1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متنازعہ کتابوں کے خلاف آپریشن جاری

تنویر شہزاد،لاہور26 جنوری 2015

پاکستانی صوبے پنجاب میں بھی فرقہ وارانہ لٹریچر اور اشتعال انگیز کتابوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن جاری ہے۔ اس منفرد آپریشن میں پولیس، ضلعی انتظامیہ اور خفیہ اداروں کے علاوہ اعلی حکومتی عہدیدار بھی حصہ لے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1EQZT
تصویر: DW/T. Sehzad

تازہ اطلاعات کے مطابق پاکستان میں کتابوں کے سب سے بڑے بازار اردو بازار لاہور سے متنازعہ مواد کی حامل تقریبا پچاس ہزار کتابیں حکام نے قبضے میں لے لی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کتابیں تاجروں اور ناشروں نے رضاکارانہ طور پر سرنڈر کی ہیں۔ اردو بازار میں اس وقت کاروباری سرگرمیاں مانند پڑ چکی ہیں اور ہر طرف خوف و ہراس کا عالم ہے۔ وقفے وقفے سے یہاں پولیس اہلکار آتے ہیں اور اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق "متنازعہ" کتابیں اور دکانداروں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ یہاں سے گرفتار کیے جانے والے دکانداروں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت بھی پرچے درج کیے جا رہے ہیں۔

انجمن تاجران اردو بازار کے صدر خالد پرویز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فی الحال آپریشن میں عارضی تعطّل آیا ہوا ہے۔ تاجر اور پبلشرز خود سے رضاکارانہ طور پر متنازعہ کتابیں سرنڈر کرکے آئندہ ایسی کتابیں نہ چھاپنے کاحلف نامہ جمع کروا رہے ہیں۔ ان کے بقول رضاکارانہ طور پر متنازعہ کتابیں حکومت کے حوالے کرنے کی مدت 27 جنوری کو ختم ہو رہی ہے۔ اس کے بعد پولیس اور انتظامیہ متنازعہ مواد کی حامل کتابوں کو چھاپنے اور بیچنے والے تاجروں کے خلاف کارروائی میں آزاد ہوں گے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب تک ضبط کی جانے والی کتابیں کُل متنازعہ کتابوں کا چوتھائی بھی نہیں ہے۔

ادھر اردو بازار کے دوکانداروں کا موقف ہے کہ متنازعہ مواد پر مبنی کتابوں کی اشاعت اور فروخت کے حوالے سے حکومت کے پاس کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ ہر ایجنسی اپنی سمجھ کے مطابق پولیس کو متنازعہ کتابوں کی لسٹ تھما دیتی ہے اور وہ بلا تحقیق کارروائی شروع کر دیتے ہیں۔ کتاب سرائے نامی ایک ادارے کے سربراہ جمال ا لدین افغانی نے بتایا کہ کتابوں کو بین کرنے کا فیصلہ پنجاب کے متحدہ علما بورڈ کی مشاورت کے ساتھ کیا جانا چاہیے اور مکمل چھان بین کے بعد ہی تیار کی جانے والی متنازعہ کتابوں کی لسٹ پبلشرز کو فراہم کی جانی چاہیے اگر کوئی اس فہرست کی خلاف ورزی کرے تو پھر اس کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہیے۔

ایک اور تاجر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اردو بازار کے کئی تاجر دکانیں بند کرکے گھر بیٹھ گئے ہیں۔ ان کے بقول سردیوں کا موسم کتابوں کے کاروبار کے لیے پیک سیزن خیال کیا جاتا ہے۔ پہلے دھرنے سے کاروبار متاثر ہوا، پھر دھشت گردی کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہوگئے، اب آپریشن کے خوف کی وجہ سے پاکستان بھر سے ملنے والے آرڈرز کا سلسلہ معطّل ہے اور آمدن نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔

ایک دوسرے تاجر نے بتایا ممنوعہ مواد کی حامل کتابوں کی فہرست میں شمشیر بے نیام کے نام سے چھاپا جانے والا ایک فرقہ وارانہ پمفلٹ بھی شامل ہے۔ یہ اطلاع ملتے ہی ملک بھر کے بک سٹالوں سے اردو کے معروف ادیب عنایت اللہ کی خالد بن ولید کے حوالے سے لکھی جانے والی تاریخی کتاب شمشیر بے نیام بھی ہٹا لی گئی ہے۔

اردو بازار کے دکانداروں کے بقول اس آپریشن میں شریک پولیس اہلکارادبی اور علمی معاملات کی زیادہ سوجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ اردو بازار میں اس آپریشن کے حوالے سے کئی کہانیاں سننے میں آ رہی ہیں۔ ایک پولیس اہلکار ایک ایسے شخص کو پکڑ کر لے گیا جن کا نام متنازعہ کتابوں کی فہرست میں نہیں تھا، ایک دوسرا پولیس اہلکار بازار میں مولانا شبلی نعمانی کا پتہ دریافت کرتا پایا گیا۔ ایک اور پولیس اہکار کو ایک ایسی کتاب کے پبلشر کی تلاش تھی جسے کئی سو سال پہلے لکھا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ متنازعہ کتابوں کے حوالے سے تیار کی جانے والی فہرست میں مکتبہ ضیاالقرآن کا نام بھی شامل ہے جو کہ مذہبی امور کے وفاقی وزیر مملکت امین الحسنات کے خاندان کی ملکیت ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے وفاقی وزیر مملکت برائے مذہبی امور امین الحسنات شاہ نے بتایا کہ کوئی عالم دین اگر کوئی متنازعہ تقریر کرے تو اس کے اثرات محدود ہوتے ہیں، جبکہ کسی سکالر کی لکھی ہوئی متنازعہ کتاب جب گھروں، اداروں اور لائبریریوں کے ذریعے زیادہ لوگوں تک پہنچتی ہے اور اس کے اثرات زیادہ سنگین ہوتےہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ حکومت اس آپریشن کے دوران تاجروں کے تحفظات کو دور کرے گی لیکن یہ آپریشن متحدہ علما کونسل پنجاب کی زیر نگرانی ضرور جاری رہے گا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے چند سال پہلے متحدہ علما کونسل پنجاب کی سربراہی کے دوران اپنے ادارے کی مطبوعہ متنازعہ کتابوں کو خود ہی بین کر دیا تھا اس کے بعد انہوں نہ کبھی وہ کتابیں نہیں چھاپیں۔ انہوں نے اس تاثر کی بھی تردید کی کہ اس آپریشن کے دوران کسی ایک فرقے کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ متنازعہ کتابوں کا اکثر مواد انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے۔ اس حوالے سے حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے، بعض ذرائع کہہ رہے ہیں کہ حکومتی حلقوں میں مذہبی کتابوں کی اشاعت سے پہلے اس کی منظوری لینے کی تجویز بھی زیر غور ہے اگر ایسا ہوا تو یہ اظہار رائے کے اصولوں کے منافی ہوگا۔ مبصرین کے مطابق حکومت کو اختلاف رائے اور قرفہ وارانہ چپقلش میں فرق روا رکھنا ہوگا اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومت کو ملنے والی عوامی حمایت متاثر ہو سکتی ہے۔