1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’متنازعہ فتوے‘ اور پروفيسر محمد شکيل اوج کا قتل

عاصم سليم19 ستمبر 2014

پاکستان کے جنوبی شہر کراچی ميں مذہبی امور کے حوالے سے ’آزاد خيال‘ مانے جانے والے ايک پروفيسر کو ہلاک کر ديا گيا ہے۔ پروفيسر محمد شکيل اوج کو دو برس قبل ايک مہم ميں ’اپنے دين سے عليحدگی اختيار کرنے والا‘ قرار ديا گيا تھا۔

https://p.dw.com/p/1DFOo
تصویر: DW/S.K. Saif

پاکستان کی معروف يونيورسٹی آف کراچی کے شعبہ اسلامک اسٹڈيز کے ڈين کی حيثيت سے کام کرنے والے پروفيسر محمد شکيل اوج گزشتہ روز ايرانی ثقافتی مرکز ميں ايک تقريب ميں شرکت کے ليے جا رہے تھے، جب ان پر جان ليوا حملہ کيا گيا۔ ايک سينئر پوليس آفيسر پير محمد شاہ نے نيوز ايجنسی اے ايف پی کو بتايا کہ پروفيسر اوج کی گاڑی ايک فلائی اوور سے گزر رہی تھی کہ اس پر فائرنگ ہوئی اور ايک گولی ان کے سر پر جا لگی، جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔ گاڑی ميں پروفيسر اوج کے ساتھ کام کرنے والی ايک خاتون بھی سوار تھيں، جو ہاتھ ميں گولی لگنے کے سبب زخمی ہيں۔

مقامی پوليس کے ايک ترجمان عتيق شيخ کے بقول پوليس واقعے کی تحقيقات کر رہی ہے اور اس سلسلے میں مختلف پہلوؤں پر بھی غور کیا جا رہا ہے، جن ميں ذاتی دشمنی اور ديگر مقاصد بھی شامل ہيں۔

اس وقعے کے بعد کراچی يونيورسٹی کے طلباء نے کيمپس کے اندر ہی احتجاج کيا اور پروفيسر محمد شکيل اوج کے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کيا۔ انہوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر مندرجہ ذيل الفاظ درج تھے، ’’اساتذہ کا قتل، پورے کے پورے معاشرے کا قتل ہے۔ اساتذہ کو تحفظ فراہم کیا جائے۔‘‘ يہ اعلان بھی کيا گيا ہے کہ پروفيسر اوج کے ہلاکت پر سوگ منانے کے ليے کراچی يونيورسٹی تين دنوں کے ليے بند رہے گی۔

54 سالہ پروفيسر محمد شکيل اوج کو ان کے ’آزاد مذہبی خيالات‘ کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ انہوں نے چند ايک متنازعہ فتوے جاری کر رکھے تھے، جن ميں ايسے فتوے بھی شامل تھے کہ ’’مسلمان خاتون غير مسلمان سے شادی کا بندھن باندھ سکتی ہے‘‘ اور ’’خواتين کو نماز پڑھنے سے قبل سرخی اور نيل پالش ہٹانے کی ضرورت نہيں ہے۔‘‘ يہ امر اہم ہے کہ ايسے خيالات پاکستان ميں چند قدامت پسند حلقوں ميں انتہائی ناپسند کيے جاتے ہيں۔

واضح رہے کہ پروفيسر اوج اپنے خلاف درج ايک مقدمہ بھی لڑ رہے تھے، جس ميں ايک شخص نے ايس ايم ايس ميسيجز کی ايک مہم کے ذريعے پروفيسر کو ’اپنے دين سے عليحدگی اختيار کرنے والا‘ قرار ديا تھا۔ اپنے دفاع کے آغاز ہی ميں انہوں نے عدالتی سماعت ميں يہ کہہ ديا تھا کہ اس معاملے نے ان کی جان کو خطرے ميں ڈال ديا ہے اور اس پروپیگينڈا کے وجہ سے انہيں قتل بھی کيا جا سکتا ہے۔