‘مالیاتی بحران کا خطرہ بڑھ رہا ہے‘، یورپی یونین کا سربراہی اجلاس
23 اکتوبر 2014یورپی یونین کا دو روز ہ سربرہی اجلاس آج سے برسلز میں شروع ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں خاص طور پر یونین کی کمزور ہوتی ہوئی اقتصادی صورتحال کے علاوہ تحفظ ماحول اور توانائی کے یورپی منصوبوں پر بات ہو گی۔ یورپی کونسل کے صدر ہیرمن فان رومپوئے کے مطابق وہ پر امید ہیں کہ آج شام تک اس معاملے پر 28 رکن ریاستوں کے مابین اتفاق رائے ہو جائے گا۔ بطور یورپی یونین کے صدر یہ ان کا آخری سربراہی اجلاس بھی ہو سکتا ہے۔ ان کے عہدےکی میعاد نومبر کے آخر میں ختم ہو رہی ہے۔
دوسری جانب اقتصادی صورتحال میں خاطر خواہ بہتری نہ ہونے کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر کسادی بازاری کا خطرہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ یورپی یونین میں یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ مالیاتی بحران کا دور گزر گیا ہے۔ تاہم اب سیاسی اجلاسوں میں دوبارہ سے اس موضوع پر بات چیت ہونے لگی ہے۔ ایک جانب فرانس اور اٹلی جیسے ممالک ہیں، جو بچت کرنے اور حکومتی سرمایہ کاری کے ساتھ ہدف بنا کر ترقی کرنے کی وکالت کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب جرمنی اور کچھ حد تک برطانیہ، فن لینڈ اور ہالینڈ ہیں، جن کا موقف ہے کہ مالیاتی مسائل سے نکلنے کا واحد طریقہ متوازن بحٹ اور مسابقت بازی کا رجحان ہے۔
اٹلی کے سوشلسٹ وزیراعظم ماتیو رینزی کہتے ہیں کہ سخت بچتی پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے یورپ کو موجودہ صورتحال میں نمو پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ ان کے بقول ابھی تک کی بچتی پالیسیاں مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں رہی ہیں۔ فرانسیسی سربراہ مملکت فرانسوا اولانڈ کے خیال میں ہر جگہ غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکا میں اقتصادی ترقی سست روی کا شکار ہے اور یورپ ابھی تک اس بحران سے باہر نکلنے کے راستے تلاش کر رہا ہے۔ فرانسی کے وزیر اقتصادیات نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ 1930ء کی دہائی جیسی کسادبازاری کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سمیت شمالی یورپی ممالک کے سیاستدان کئی سالوں سے باور کرا نے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بات صرف بجٹ کے خسارے کی نہیں ہے بلکہ اصل چیز مقابلے کا رجحان پیدا کرنا ہے۔ ان رہنماؤں کے بقول مسابقت کی فضا کو بہتر بنانے کے لیے بہت بڑی سرمایہ کاری درکار نہیں ہوتی۔ مالیاتی امور کے ماہر گنٹرم وولف کے بقول بجٹ خسارے کے ضوابط سے زیادہ اہم نظام کی ساخت میں بنیادی اصلاحات کرنا ہے۔ اس بارے میں انہوں نے اسپین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ میڈرڈ حکومت انہی اصلاحات کی وجہ سے حالات پر قابو پانے میں کافی حد تک کامیاب ہوئی ہے۔