ماحول دوست تدفین رواج پکڑتی ہوئی
جرمنی میں آخری رسومات کا انتظام کرنے والی کمپنیوں نے تحفظِ ماحول کا خیال رکھتے ہوئے نئے طریقے متعارف کرائے ہیں۔ اب ایسے تابوت تیار کیے جا رہے ہیں، جو ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر فوری طور پر قدرتی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔
بید سے بنا تابوت
جسے روایتی تابوت کی بناوٹ پسند نہ ہو وہ اپنی زندگی میں ہی اپنی لیے بید سے بُنے تابوت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ اس تابوت کی بُنائی کا کھلنا آسان ہوتا ہے اور اس کے اندر لگے کپڑے کو الگ کرنا بھی مشکل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بید کا درخت بہت تیزی سے بھی بڑھتا ہے۔ اس انداز میں تدفین کے خواہش مند افراد کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی ماحول دوست ہی رہے۔
کفن
ہزاروں سالوں سے مردوں کو کپڑے میں لپیٹ کر دفنانے کا سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ یورپ میں ابھی تک لوگ مردوں کو دفنانے کا یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تدفین کا یہ انداز کم خرچ ہے، وہ غلطی پر ہیں کیونکہ کفن کے کپڑے کی قیمت ایک ہزار ڈالر تک بھی ہوتی ہے۔
اخباری کاغذ سے تیار کردہ تابوت
یہ بات بالکل بھی دلفریب نہیں لگتی کہ کوئی شخص اپنا آخری سفر اخبار کے دوبارہ کارآمد بنائے گئے صفحات میں طے کرے۔ اب اخبارات کے صفحات کو بھی خوبصورت تابوتوں کی شکل دی جانے لگی ہے۔ اگر کسی کو یہ ناپسند ہوں تو تابوت سونے کا بھی بنوایا جا سکتا ہے۔ آخر کار مرتا تو انسان صرف ایک ہی بار ہے۔
کم وزن اور ہلکا پھلکا
اخبارات کے صفحات سے بنائے گئے تابوتوں کا وزن نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ دفنانے کے بعد یہ بہت جلد ہی مٹی کا حصہ بن جاتے ہیں، جو قبرستان کے قدرتی ماحول کے لیے بہت ہی سازگار ہوتا ہے۔
اخبار سے بنایا گیا مصری راکھ دان
اخبارات سے تیار کردہ راکھ دان بھی اُسی کمپنی کی اختراع ہیں، جس نے اخباری کاغذ سے بنائے گئے تابوت متعارف کرائے ہیں۔ ڈیزائنر ہَیزل سیلینا کا کہنا ہے کہ قدیم مصر میں تجہیز و تکفین کی رسومات نے اُنہیں بہت متاثر کیا اور اخبارات سے راکھ دان بنانے کا خیال بھی اُن کے ذہن میں اِنہی مصری روایات کی وجہ سے آیا۔
درخت کی طرح کا راکھ دان
مختلف شکلوں کے راکھ دان بنانے والی مختلف کمپنیوں نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ایسے برتن بھی بنائے ہیں، جن میں کھاد اور بیج بھی موجود ہوتے ہیں۔ سِرامک کا بنا اِس برتن کا ڈھکن اُس وقت ٹوٹ جاتا ہے، جب پودہ زمین سے اُبھرنا شروع کرتا ہے۔
زیرِ آب راکھ دان
اپنی راکھ کے سمندر برُد کیے جانے کی خواہش رکھنے والے افراد کے لیے کاغذ سے بنا ہوا یہ خصوصی برتن تیار کیا گیا ہے۔ مرنے والے کے لواحقین اِس برتن پر نقش و نگار بھی بنا سکتے ہیں اور اپنے آخری پیغامات بھی اِس میں ڈال سکتے ہیں۔
انسانی درخت
اس تھیلے میں لاش کو بالکل اُسی طرح سے رکھا جاتا ہے، جس طرح بچہ ماہ کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ یہ تصور ایک اطالوی ڈیزائنر نے پیش کیا۔ اس میں لاش ایک درخت کی غذا بنتی ہے۔ اطالوی حکومت نے ابھی تک مُردوں کو اس طرح سے ’دفنانے‘ کی اجازت نہیں دی اور اسے ’مستقبل کا ڈیزائن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔