1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماحول دشمن چولہوں سے نجات کا پروگرام

عابد حسین8 اپریل 2015

جنوبی ایشیا میں بھارت کی بڑی آبادی تیل کے چولہوں یا لکڑی یا اُپلوں کو استعمال کر کے کھانا تیار کرتی ہے۔ ماحول دوست ادارے کم کاربن چھوڑنے والے چولہوں کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1F48u
تصویر: Fotolia/stockyimages

جنوبی ایشیائی ملکوں بھارت اور پاکستان میں کروڑوں خواتین کھانا پکانے کے لیے مٹی کے تیل سے جلنے والے چولہوں یا پھر گھریلو مویشیوں کے گوبر سے بنے اُپلوں کے علاوہ لکڑی کا استعمال کرتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اِن چولہوں میں جلنے والی آگ فضا میں ایسے زہریلے سیاہ کاربن ذرات چھوڑتی ہے جو انسانی پھیپھڑوں میں پہنچنے کے بعد بتدریج جمنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اِس باعث کئی خواتین بے وقت کی موت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہی بلیک کاربن فضا میں داخل ہو کر کلائمیٹ چینج کا باعث بن رہی ہے۔

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق اگر تمام چولہوں سے نکلنے والی بلیک کاربن کے حجم کا اندازہ لگایا جائے تو یہ ایک آفت سے کم نہیں ہے۔ ابھی تک اِس بلیک کاربن کے حجم کو ماپا نہیں گیا ہے۔ اسی باعث اب ماحول دوست افراد اور ڈونرز اداروں نے صاف چولہوں کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کا سلسلے شروع کر دیا ہے۔ اِس مناسبت سے ماہرینِ اقتصادیات، سائنسدانوں اور ہیلتھ ایکسپرٹس نے ایک غیرسرکاری تنظیم گولڈ اسٹینڈرڈ فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے چولہوں سے بلیک کاربن کے فضا میں شامل ہونے کے عمل کو روکنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ وہ چولہوں کے استعمال کو بہتر بنانے کے حوالے سے مختلف ٹیکنالوجیز کا سہارا لے کر تجربات کا سلسلہ شروع کیے ہوئے ہیں۔

Landwirtschaft Tansania
چولہوں میں جلنے والی آگ فضا میں ایسے زہریلے سیاہ کاربن ذرات چھوڑتی ہےتصویر: DW/K. Makoye

ریسرچرز کے مطابق دنیا بھر میں 2.8 بلین لوگوں کا انحصار لکڑیاں جلانے پر ہے۔ اسی تناظر میں خیال کیا گیا ہے کہ زمین کے تمام باسیوں کو ماحول دوست چولہے دینے پر اربوں ڈالر کی لاگت آئے گی۔ گولڈ اسٹینڈرڈ فاؤنڈیشن کے چیف ٹیکنیکل آفیسر اوون ہیولیٹ کا کہنا ہے کہ سردست ماحول دوست چولہوں کی پالیسی پر بہت سوچ بچار جاری ہے لیکن اِس پر قابو پانے کے لیے کوئی مناسب حکمتِ عملی بظاہر موجود نہیں۔

فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق مکانوں کے اندر چولہوں سے پیدا ہونے والی بلیک کاربن موت کا ایک خاموش ہتھیار ہے اور ساری دنیا میں 43 لاکھ افراد سالانہ بنیادوں پر ہلاک ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ تعداد ایڈز، ملیریا اور تپِ دِق سے زیادہ ہے۔

امریکی شہر سان ڈیاگو میں واقع کیلیفورنیا یونیورسٹی کے کیمپس میں بھارتی نژاد امریکی ماحولیاتی سائنسدان ویربدران رام ناتھن کا کہنا ہے کہ براعظم ایشیا کے بعض حصوں پر تین کلومیٹر لمبی بلیک کاربن کی لہر پیدا ہو گئی ہے اور ان علاقوں میں سورج چندھیا کر رہ گیا ہے۔ رام ناتھن کے مطابق ماحول دوست چولہے کسی حد تک گلوبل وارمنگ میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ بھی صاف اور بہتر چولہوں کے ایک پروگرام کی بھرپور تائید کر رہی ہے۔ اِس پروگرام کے تحت دنیا بھر میں کم از کم 227 مختلف پروگرام جاری ہیں اور اِن کے تحت پانچ ملین ماحول دوست چولہے تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ اِس پروگرام کے تحت سن 2020 تک 95 ملین مزید چولہے تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ امکاناً اِس عمل پر 132 بلین ڈالر کی لاگت آ سکتی ہے۔