1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مائے رؤکر 90 برس کی ہو گئیں

عاطف توقیر20 دسمبر 2014

تدریس سے تصنیف تک اپنے جوہر دکھانے والی مشہور جرمن شاعرہ فریڈریکا مائے رؤکر آسٹریا کی گیت نگاری کی نمائندہ قرار دی جاتی ہیں۔ مائے رؤکر 90 برس کی ہو گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1E7sK
تصویر: Stephen Cummiskey 2012

آسٹریا سے تعلق رکھنے والی مشہور نغمہ نگار فریڈریکا مائے رؤکر نے ایک بار اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا، ’میں زندہ ہوں کہ میں لکھتی ہوں۔‘ وہ زندگی اور ادب کے درمیان نہ کومہ لگانے کی قائل ہیں اور نہ ہی کسی بھی معنی میں انہیں ایک دوسرے سے الگ سمجھتی ہیں۔ گہرے سیاہ بالوں والی یہ جرمن ادیبہ و شاعرہ آسٹریا کے ادبی منظر نامے میں کئی دہائیوں سے انتہائی نمایاں مقام کی حامل ہیں۔ انہوں نے پندرہ برس کی عمر سے اپنا ادبی سفر شروع کیا، جو ان کی اس 90ویں سالگرہ تک کبھی کسی موڑ پر رکا نہیں۔

اپنے منفرد اسلوب اور غیر معمولی استعاراتی ابلاغ کی وجہ سے مائے رؤکر آسٹریا میں شاعری اور نثر دونوں میدانوں میں نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔ ویانا میں پیدا ہونے والی مائے رؤکر نے پہلا ادب پارہ پندرہ برس کی عمر میں تخلیق کیا۔ پہلی مرتبہ ان کی شاعری سن 1946ء میں ’پلان‘ میگزین میں شائع ہوئی۔ اسی سال انہوں نے ویانا میں سیکنڈری اسکولوں میں انگریزی تدریس کا کام شروع کیا۔

Friederike Mayröcker
منفرد اسلوب اور غیر معمولی استعاراتی ابلاغ کی وجہ سے مائے رؤکر آسٹریا میں شاعری اور نثر دونوں میدانوں میں نمایاں حیثیت کی حامل ہیںتصویر: AP

23 برس تک تدریس کے شعبے میں خدمات انجام دینے والی مائے رؤکر پڑھانے کو ’مجبوری‘ قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’میں ہمیشہ ایک بری استانی رہی۔‘ تاہم بعد میں انہوں نے خود کو مکمل طور پر ادب کے لیے وقف کر دیا۔ اس کے بعد سے وہ باقاعدگی کے ساتھ اپنے پرانے کام پر نگاہ بھی ڈالتی رہیں اور نیا ادب تخلیق بھی کرتی رہیں۔

ان کی شاعری، نثر، ناول اور دیگر ادبی اصناف میں کاوشوں کو دیکھا جائے تو یہ تقریباﹰ 100 جلدوں پر مشتمل ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ذہن میں ایک غیرمعمولی سفر کا خاکہ تیار کر لیتی ہیں، جو ان کی کہانیوں میں دکھائی بھی دیتا ہے۔ ایک بار ایک انٹرویو میں ماے رؤکر نے کہا تھا، ’خدا کے لیے صرف کہانیاں نہ دیکھا کریں۔ دنیا کو دیکھیں اور زندگی پر نگاہ کریں۔‘

ان کے ادب پاروں کو پڑھا جائے، تو قاری خود کو کسی منظر کا خاموش کردار محسوس کرتا ہے اور لفظ تصویری بند کر سامنے آ جاتے ہیں۔ انہوں نے خود ایک مرتبہ کہا تھا، ’میں تصویروں میں زندہ ہوں۔ میں ہر شے تصویروں میں دیکھتی ہوں۔ میرا پورا ماضی اور یادیں، سب تصویریں ہیں۔ میں تصویروں کو لفظ کے ذریعے کاغذ پر پھیلا دیتی ہوں۔ میں ہر منظر میں چلتی رہتی ہوں، اس وقت تک جب یہ تصویریں لفظ نہ بن جائیں۔‘

مائے رؤکر کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں سن 1977 میں گیورگ کراکل پرائز اور سن 2001ء میں گیورگ بؤشنر پرائز سمیت کئی اہم انعامات دیے گئے ہیں جب کہ انہیں نوبل انعام دیے جانے کی حوالے سے بھی چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں۔ ان کی 90ویں سالگرہ کے موقع پر آسٹریا میں متعدد ادبی تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جب میں ان کی ادبی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔