لیما ماحولیاتی مذاکرات میں کیا ہوا؟
15 دسمبر 2014یہ اجلاس اتوار کو پیرو کے شہر لیما میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ جن باتوں پر اتفاق رائے ہوا، ان کی تفصیل یوں ہے:
سبز مکانی گیسوں کے منصوبے
تمام ملکوں سے کہا جائے گا کہ وہ اقوامِ متحدہ کے سامنے آئندہ برس اکتیس مارچ تک سبز مکانی گیسوں کے اخراج کے خاتمے کے لیے منصوبے پیش کریں۔ تاہم اس حوالے سے تفصیلات دینے کے لیے کوئی لازمی شرائط نہیں ہوں گی۔ حالانکہ یورپی یونین نے شرائط طے کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن چین اور دیگر ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقتوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
کون کیا کرے گا؟
ماحولیاتی معاہدے کے مسودے میں تمام ملکوں سے عالمی درجہ حرارت میں اضافے پر قابو پانے کے لیے کارروائیاں کرنے کے لیے کہا جائے گا۔ قبل ازیں ایسا کرنے کے لیے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے درمیان علیحدہ شرائط کی بات ہوتی رہی ہے۔ یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اس حوالے سے ترقی یافتہ ملکوں کو آگے بڑھنا ہو گا۔ بھارت جیسی ابھرتی ہوئی معاشی طاقتوں کا اصرار ہے کہ اس عمل کو اسی ضابطے کے تحت آگے بڑھایا جائے۔ تاہم امریکا کا کہنا ہےکہ اب دنیا بدل چکی ہے اور ترقی پذیر ملکوں کو بھی گیسوں کے اخراج میں کمی کی ضرورت ہے۔
اخراجات
ترقی پذیر ملکوں کو اپنے ہاں گرین ہاؤس گیسوں میں کمی میں مدد دینے کے لیے ایک گرین کلائمیٹ فنڈ بنایا گیا ہے۔ اس کے لیے ملنے والی امداد اقوام متحدہ کے دس بلین ڈالر کے ہدف سے تجاوز کر چکی ہے جس میں آسٹریلیا اور بیلجیم کا وسیع تر مالی تعاون شامل ہے۔
طویل المدتی معاہدے کے ’عناصر‘
لیما میں ہونے والے مذاکرات میں سینتیس صفحات پر مبنی ’عناصر‘ پر اتفاق ہوا ہے جو آئندہ برس پیرس میں ہونے والے ماحولیاتی مذاکرات کے لیے بنیادیں فراہم کریں گے۔ ان میں سے ایک نکتہ یہ ہے کہ سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے ایک طویل المدتی ہدف مقرر کیا جائے جس کے تحت 2050ء تک اس اخراج کی سطح صفر کی جائے۔
متعدد ترقی پذیر ممالک ماحولیاتی تبدیلوں کے مطابق ڈھلنے کے لیے مدد کے خواہاں ہیں، مثلاﹰ کسانوں کو ایسی فصلیں اگانے کے لیے مدد دینا جو خشک سالی یا سیلاب کا نشانہ نہ بنیں۔
نقصان
شدید موسموں کے خطرے سے دو چار ترقی پذیر ممالک نے کامیابی سے اس مسودے میں ’نقصان اور گھاٹے‘ کے الفاظ درج کروا لیے ہیں۔ مثلاﹰ بڑے سمندری طوفانوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا ہرجانہ۔ امریکا نے اس کی مخالفت کی تھی۔