1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا ’نیا دبئی‘ نہ بن سکا، صومالیہ بن جانے کا خدشہ

عصمت جبیں23 اکتوبر 2014

2011ء میں جب لیبیا میں عشروں تک حکمران رہنے والے ڈکٹیٹر معمر قذافی کی حکومت ختم ہوئی تھی تو عوام کو امید تھی کہ یہ ملک جلد ہی ایک ’نیا دبئی‘ بن جائے گا۔ خونریزی کے شکار ملک لیبیا میں یہ خواب تاحال ایک خواب ہے۔

https://p.dw.com/p/1Db2G
لیبیا کے ملیشیا گروپ انتہائی طاقتور اور بھاری ہتھیاروں سے مسلح ہیںتصویر: Reuters

لیبیا کے بندر گاہی شہر بن غازی سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق آج اس شمالی افریقی ملک کے عوام ان خدشات کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں کہ ان کا ملک صومالیہ کی طرح ایک ’ناکام ریاست‘ بن جائے گا، جہاں سیاسی انتشار پایا جاتا ہے، مسلح ملیشیا گروپوں کی بھرمار ہے، مکمل لاقانونیت کا ماحول ہے اور ہر طرف لاتعداد ہتھیار دیکھنے کو ملتے ہیں۔

23 اکتوبر 2011ء کے روز، جب معمر قذافی کے پکڑے جانے اور باغیوں کے ایک مشتعل ہجوم کے ہاتھوں اس ڈکٹیٹر کی ہلاکت کو ابھی تین ہی دن ہوئے تھے، عبوری انتظامیہ میں شامل حکمرانوں نے اس ملک کی ’مکمل آزادی‘ کا اعلان کر دیا تھا۔ قذافی دور کے مکمل خاتمے کے بعد ایک نئے لیبیا کے وجود میں آنے کا پرمسرت اعلان بن غازی کے اسی مشرقی شہر سے کیا گیا تھا، جہاں سے قذافی کی موت سے آٹھ مہینے اس آمر کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی تھی۔

لیبیا میں 23 اکتوبر کا دن اب ایک قومی تعطیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اس سال آج جمعرات کو اس دن کی مناسبت سے کسی سرکاری تقریب یا پروگرام کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ آج لیبیا ایک ایسا ملک ہے جہاں دو حکومتیں قائم ہیں۔ ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ملکی حکومت اور دوسری ایک ایسی نام نہاد حکومت جس کے اقتدار میں آنے کا اعلان ایک مسلح ملیشیا گروپ نے کیا تھا۔

Muammar Al Gaddafi Portrait
معمر قذافی تین سال قبل بیس اکتوبر کے دن باغیوں کے ایک مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مارے گئے تھےتصویر: Christophe Simon/AFP/Getty Images

آج لیبیا کی ’مکمل آزادی‘ کے تین سال پورے ہونے کی مناسبت سے اس بات کو ایک افسوسناک حقیقت ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت بھی بن غازی اور مغربی لیبیا میں بین الاقوامی برادری کی تسلیم کردہ ملکی حکومت اور حکومت مخالف مسلح ملیشیا گروپوں کے مابین خونریز جھڑپیں جاری ہیں۔

چند سال پہلے لیبیا کے جن لاکھوں شہریوں نے معمر قذافی کی آمریت کے خلاف مسلح جدوجہد کی تھی، ان میں محمد نامی ایک ایسا استاد بھی شامل تھا، جس کی عمر اس وقت 39 برس ہے۔ محمد نے اے ایف پی کے ساتھ بات چیت میں کہا، ’’تین سال پہلے جب لیبیا کی مکمل آزادی کا اعلان کیا گیا تھا، ہمیں امید تھی کہ تیل کے وسیع تر ذخائر کی مدد سے ہم جلد ہی ایک نیا دبئی بن جائیں گے، امیر اور ترقی یافتہ۔ لیکن آج ہمیں یہ شدید خدشہ لاحق ہے کہ ہم ایک اور صومالیہ یا عراق بن جائیں گے۔‘‘

لیبیا پچھلے چند برسوں سے اس حد تک داخلی خونریزی اور انتشار کا شکار ہے کہ کئی شہری تو یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ ان کی نظر میں موجودہ دور سے اچھا قذافی دور کا وہ ماضی تھا، جب کم از کم ملک میں استحکام پایا جاتا تھا۔ بن غازی کے رہنے والے ایک ڈاکٹر صالح محمود نے اے ایف پی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’موجودہ لاتعداد علاقائی، نظریاتی اور قبائلی تنازعات کسی ڈکٹیٹر کی حکومت سے بھی زیادہ برے ہیں۔‘‘

صالح محمود کے بقول کئی عام شہری قذافی کے لیے اپنی نفرت کے باوجود ماضی کے داخلی استحکام کو یاد کرتے ہیں۔ لیبیا کے اس ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات کے زیادہ تر ذمہ دار وہ مسلح ملیشیا گروپ ہیں، جو بڑی بےفکری سے ہر طرف دندناتے پھرتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید