1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا میں فوری فائر بندی کے لیے امریکا میں اجلاس

ندیم گِل23 ستمبر 2014

یورپی یونین، اقوام متحدہ اور تیرہ ملکوں کے وزرائے خارجہ نے لیبیا میں فوری سیز فائر کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے مخالف دھڑوں کے درمیان اقتدار کی لڑائی روکنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی بھی حمایت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DHCk
تصویر: Reuters

اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر ملکوں کے وزرائے خارجہ نے پیر کو امریکی شہر نیو یارک کے ایک ہوٹل میں ملاقات کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا: ’’اس تنازعے کو عسکری طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

اس بیان میں مزید کہا گیا: ’’ہم تمام فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوری اور جامع سیز فائر کو تسلیم کریں۔‘‘

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اس اجلاس میں ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے ہیں جس میں لیبیا میں ’بیرونی مداخلت‘ ختم کرنے کے لیے زور دیا گیا ہے۔

اس اجلاس میں مصر، متحدہ عرب امارات، ترکی، قطر، الجزائر، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، سعودی عرب، اسپین اور تیونس کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔

Abdullah al-Thani Libyen Regierungschef 03.06.2014
عبداللہ الثنیتصویر: AFP/Getty Images

اجلاس کی صدارت امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کی۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے صحافیوں کو بتایا کہ اس اجلاس کا مقصد لیبیا کے حالات کے بارے میں بین لااقوامی برادری کے ردعمل میں مطابقت پیدا کرنا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس موقع پر تمام وزراء نے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برنارڈینو لیون کے مشن کی توثیق کی۔ امریکی اہلکار نے کہا کہ لیون لیبیا کے ارکانِ پارلیمنٹ کے درمیان مصالحت کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ الجزائر نے آئندہ ہفتوں کے دوران سیز فائر پر مذاکرات کی میزبانی کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس امریکی اہلکار نے یہ باتیں اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک مشکل کام ہو گا لیکن نیویارک میں پیر کو ہونے والے اجلاس کے موقع پر ہر کسی نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ معمر قذافی کے زوال کے بعد بین الاقوامی برادری کو لیبیا کے لیے زیادہ کام کرنے کی ضرورت تھی۔

انہوں نے کہا: ’’لہذا یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم کوشش کریں اور وہاں امن کے قیام کے لیے ہر ممکن کام کریں گے۔‘‘

لیبیا کے آمر رہنما معمر قذافی 2011ء میں بغاوت کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ وہاں تب سے ہی سیاسی عدم استحکام چلا آ رہا ہے۔

اس کے تین برس بعد وزیر اعظم عبداللہ الثنی کی حکومت اور جون میں منتخب ہونے والے پارلیمنٹ کو ان کے حریف چیلنج کر رہے ہیں جنہیں اسلام پسندوں کی حمایت حاصل ہے۔