1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا میں خونریز جھڑپیں، درجنوں ہلاکتیں

مارٹِن ساگٹّا / مقبول ملک28 جولائی 2014

لیبیا کے مشرق میں ملکی فوج اور عسکریت پسندوں کے مابین تازہ جھڑپوں میں کم ازکم 38 افراد مارے گئے ہیں۔ اس شمالی افریقی ریاست میں مسلسل بدامنی کے باعث کئی مغربی ملکوں نے اپنے شہریوں کو لیبیا سے رخصتی کے لیے کہہ دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ckpq
تصویر: picture-alliance/AP Photo

جرمنی، برطانیہ اور امریکا اپنے شہریوں کو لیبیا سے نکل جانے کا مشورہ دے چکے ہیں جبکہ ملکی دارالحکومت کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ارد گرد ہونے والی شدید لڑائی کے پیش نظر امریکا طرابلس میں اپنے سفارتخانے کے تمام اہلکاروں کو واپس بلا چکا ہے۔

طرابلس سے امریکی سفارتی عملے کا انخلاء اس لیے مہم جو نوعیت کا رہا ہو گا کہ لیبیا کے دارالحکومت سے امریکی سفارت خانے کے اہلکاروں کو زمینی راستے سے ہمسایہ ملک تیونس پہنچایا گیا تھا۔ یہ گاڑی کے ذریعے پانچ گھنٹے کا سفر تھا، جس دوران کہا جاتا ہے کہ جنگی طیاروں اور فوجی ہیلی کاپٹروں نے فضا سے اس زمینی قافلے کی سلامتی کو یقینی بنایا۔

اس حوالے سے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا تھا، ’’لیبیا کے دارالحکومت میں ملیشیا گروپوں کی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے حالات ناقابل کنٹرول ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر شہر کے اس حصے میں جہاں امریکی سفارت خانہ قائم ہے۔ امریکی سفارت خانے کے ملازمین کی جانوں کو خطرہ ہے۔ ہم نے اپنی سفارتی نمائندگی کو عارضی طور پر معطل کیا ہے لیکن سفارت خانہ بند نہیں کیا۔‘‘

Tripolis Kämpfe nahe Flughafen Libyen
طرابلس ایئر پورٹ کے نواح میں خونریز جھڑپیں کئی روز تک جاری رہیںتصویر: MAHMUD TURKIA/AFP/Getty Images

طرابلس سے رات کی تاریکی میں امریکی سفارتی عملے کے انخلاء کا تعلق اس واقعے کی یاد سے بھی ہے جس میں دو سال قبل شمال مشرقی لیبیا میں بن غازی کے شہر میں امریکی قونصل خانے پر عسکریت پسندوں کے حملے میں امریکی سفیر اور ان کے تین ساتھی سفارتکار ہلاک کر دیے گئے تھے۔ اس تناظر میں طرابلس سے امریکی سفارتی انخلاء کا فیصلہ بظاہر اس لیے درست محسوس ہوتا ہے کہ ویک اینڈ پر اسی شہر میں ایک راکٹ حملے میں 20 سے زائد مصری کارکن مارے گئے۔

لیبیا کا المیہ یہ ہے کہ نیٹو کی مدد سے 2011ء میں معمر قذافی کے طویل اقتدار کے خاتمے کے بعد سے یہ ملک مسلح ملیشیا گروپوں کے مابین میدان جنگ بن چکا ہے۔ ان عسکری قوتوں میں قذافی دور میں لڑنے والے مسلح قبائلی گروپ بھی شامل ہیں، باغی فوجی بھی اور وہ اسلام پسند ملیشیا گروہ بھی جو مختلف شہروں اور پورے کے پورے علاقوں پر قبضے کے لیے اپنی خونریز جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

لیبیا کی حکومت ان سب مسلح قوتوں کے خلاف اس لیے بے بس ہے کہ اس ملک میں اس وقت کوئی فعال سکیورٹی فورسز موجود ہی نہیں۔ طرابلس حکومت تو ریاست کی مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کے خلاف خبردار بھی کر چکی ہے۔ نو منتخب ملکی پارلیمان نے مسلسل بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے باعث یہ تجویز پیش کر دی ہے کہ پارلیمان طرابلس سے بندرگاہی شہر بن غازی منتقل کر دی جائے۔

بن غازی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں بھی مسلح جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ لیبیا کی فوج کے ایک ترجمان کے مطابق ابھی حال ہی میں بن غازی میں مسلح عسکریت پسندوں نے شہر میں ایک فوجی اڈے پر حملہ کر دیا۔ اس کے علاوہ ملکی سکیورٹی فورسز کا ایک حصہ ایک ایسے باغی جنرل کے ساتھ مل چکا ہے، جو اپنے طور پر مسلح اسلام پسندوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتا ہے۔

ایسے میں لیبیا کی صورت حال پر تشویش کی وجوہات بہت سی ہیں، اطمینان کی وجہ ایک بھی نہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید